حضرت امام حسين کا يومِ شہادت آج ساري دنيا ميں منايا جارہا ہے۔ ساري مسلم دنيا ان کي يزيد کے خلاف جنگ کو حق و باطل کي جنگ قرار دے رہي ہے۔ ان کے ساتھيوں کي شہادت کي کہاني ايک ايک کرکے سنائي جارہي ہے۔ حضرت امام حسين نے يزيد کا مقابلہ کرتے ہوۓ جس طرح جامِ شہادت نوش کيا اب يہ ہماري تاريخ کا ايک اہم حصہ ہے۔ حضرت امام حسين کي شہادت اب صرف سيف الملوک اور يوسف زليخا کے قصہ کي طرح دہرائي جاتي ہے۔ آئيں حضرت امام حسين کو عقيدت کے پھول ايک انوکھے خيال ميں پيش کريں۔ تھوڑي دير کيلۓ فرض کرليں کہ اگر حضرت امام حسين آج زندہ ہوتے تو وہ کس کا ساتھ ديتے اور موجودہ حالات ميں ان کا ردّ عمل کيا ہوتا۔ ہم يہاں صرف سوالات کرتے ہيں اور ان کا جواب امتِ مسلمہ پر چھوڑتے ہيں۔ 

عراق پر حملے کي صورت میں حضرت امام حسين کس کا ساتھ ديتے؟

اپنے نانا کے کارٹون بنا کر ان کي شان ميں گستاخي پر ان کا کيا ردّ عمل ہوتا؟

مکہ اور مدينہ پر مطلق العنان بادشاہت کو کيا وہ مان ليتے؟

ستاون ملکوں ميں بٹے ہوۓ مسلمانوں کو کيسے قيادت مہيا کرتے؟

ايران کا معاملہ سلامتي کونسل ميں پيش ہونے پر وہ کيا کرتے؟

افغانستان ميں غيرملکيوں کے قبضہ کو کيا وہ قبول کرليتے؟

فلسطينيوں پر ہونے والے مظالم پر کيا وہ خاموش رہتے؟

بيت القدس کو يہوديوں کے قبضے ميں ديکھ کر ان پر کيا گزرتي؟

گوانتاناموبے کيوبا ميں مسلمانوں کي طويل نظر بندي اور ان پر ہونے والے مظالم کو وہ کيسے ڈیل کرتے؟

مسلمانوں کو دہشت گردي کے جرم ميں پکڑ پکڑ کر غیروں کے حوالے کرکے انعام و اکرام پانے والے مسلمانوں کے بارے میں ان کا کيا فتوايٰ ہوتا؟

غيروں کيلۓ کام کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے ٹولے میں شامل منافقوں کے ساتھ ان کا رويہ کيسا ہوتا؟