جس طرح ہم نے اپنی زندگی میں پاکستان توڑنے والوں ذوالفقار علی بھٹو، مجیب الرحمن، یحی خان اور اندرا گاندھی کا عبرتناک انجام اپنی زندگی میں دیکھا اسی طرح اپنے ساتھیوں سے غداری کرنے والے پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی مٹی پلید ہوتے اپنی زندگی میں دیکھ لی۔
اگر چیف صاحب میں ذرا سی بھی ہمت ہوتی تو وہ اپنی بیٹی کے نمبر بڑھانے کے سکینڈل کا سوموٹو ایکشن لیتے اور تاریخ میں ہمیشہ کیلیے سرخرو ہو جاتے مگر شاید بکنے والے لوگوں کی قسمت میں رسوائی ہی لکھی ہوتی ہے اسلیے ان کا دھیان سوموٹو ایکشن کی طرح گیا ہی نہیں۔
قائمہ کمیٹی کے سوال “کیا بورڈ کے قوانین میں پرچے دوبارہ چیک کرکے نمبر بڑھانے کی اجازت ہے؟ کے جواب میں جب فیڈرل بورڈ کی چیئرپرسن نے خاموشی اختیار کی اور حسرت بھری نظروں سے وزیرتعلیم کی طرف دیکھنا شروع کیا فرح ڈوگر کے کیس کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا تھا۔
اب قائمہ کمیٹی نے جو سفارشات تیار کی ہیں ان پر اگر عمل ہو جائے تو پھر ہم مانیں گے کہ موجودہ حکومت غیرت مندوں کی ہے وگرنہ اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا کہ یہ سب لٹیرے ہیں۔
اگر منصف غیرتمند ہوتے تو
چیف جسٹس کے عزیز یا ہم ذات محکمہ فیڈرل بورڈ میں تعینات ڈوگر صاحب کو نوکری سے نکال دیتے کیونکہ یہ انہی کے دماغ کی شرارت ہو گی جنہوں نے یہ سارا بکھیڑا پیدا کیا۔
چونکہ سپریم کورٹ کی پرچے چیک کرنے کی رولنگ کوئی پرانی نہیں ہے اور چیف جسٹس ڈوگر اس سے ضرور آگاہ ہوں گے اس لیے ان کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی کے نمبر غیرقانونی طور پر بڑھائے جا رہے ہیں۔ اس لیے چیف جسٹس ڈوگر کو فوری طور پر برطرف کر دینا چاہیے۔
فیڈرل بورڈ کے سابقہ چیئر مین جو نیوی کے ریٹائرڈ چیف ہیں کی ساری فوجی سہولتیں واپس لے لینی چاہئیں۔ انہیں تمام فوجی اعزات سے محروم کر دینا چاہیے اور جو زمین انہیں ریٹائرمنٹ پر الاٹ ہوئی تھی وہ واپس لے لینی چاہیے۔ کیونکہ اس کیس کی فائل پر ان کا ذاتی نوٹ ہے یعنی وہ بذات خود اس کیس میں ملوث تھے۔
جن اساتذہ نے فرح ڈوگر کے پرچے دوبارہ چیک کیے انہیں نوکری سے نکال دینا چاہیے۔
جن اساتذہ نے پرچے چیک کرنے سے انکار کر دیا تھا انہیں فوری طور پر بورڈ کا چیئر مین اور ممبرز لگا دینا چاہیے۔
رہ گئی بات فرح کی تو جب اس کے نمبر دوبارہ کم کئے جائیں گے, اسے سزا مل ہی جائے گی۔ ویسے تو وہ میڈیکل کالج میں روزانہ اپنے ساتھی طلبا کی نظروں میں رسوا ہو ہی رہی ہو گی۔
لیکن ہمارے یہ مطالبات صرف حسرت ہی رہیں گے کیونکہ ابھی ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آئی جو ہندوستان کی طرح اپنا احتساب خود کر سکے۔ ہم سے تو ہندوستان بازی لے گیا جس کے وزیروں نے ممبئی دھماکوں کے بعد استعفے دے دیے۔ ایک ہمارے وزیرداخلہ شیرپاؤ تھے اور موجودہ مشیر داخلہ رحمن ملک ہیں جو کئی دھماکوں کے بعد بھی خود کو قصوروار نہیں ٹھرا پائے۔
2 users commented in " اگر منصف غیرتمند ہوتے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر غیرتمند ہوتے تو نا!
اور آپکو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ ایسے کرتوت کرنے کے بعد رسوا ہوتے ہوں گے؟ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیںیہ لوگ۔ آپ کیوں ہمیشہ دل جلاتے رہتے ہیں اپنا اور دوسروں کا؟ کبھی مثبت بھی سوچا کریں جیسے: کسی حقدار کا حق فرح بی بی نے ضرور مارا ہو گا پر وہ حقدار یقیناً رٹُو طوطا ہو گا جو ڈاکٹر بننے کا قطعاً اہل نہیں ہوگا۔ کم نمبر کسی طرح بھی فرح بی بی کو نا اہل ثابت نہیں کر سکتے۔ ہمیں یقین کرناچاہیے کہ فرح بی بی بڑی ہو کر درد مند ڈاکٹر بنیں گی اور ساری زندگی ان امیر لوگوں کا مفت علاج کریں گی جن سے انکو پُورا پُورا فائدہ اٹھانے کا موقع ملنے کی توقع ہو، یہ بھی بعید نہیں کہ حکمران طبقے سے فائدے لے کرغریبوں کوزہرکے ٹیکےلگا کر معیشت پر بوجھ کو کم کر کے حُب الوطنی کا ثبوت دیں۔
بی پازیٹو سر جی
اس سارے قضیے میں۔ ایک بات جس کا چرچا بار بار ہوا ہے۔ کہ بدنیتی سے فرح ڈوگر کے نمبر بڑہانے سے کسی حق دار کا حق مارا گیا ہے۔ فرح ڈوگر اپنے باپ چیف جسٹس ڈوگر کی حیثیت کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ھوئیں جو کہ اپنی جگہ پہ ظلم ہے۔ مگر جس بات کا کہیں چرچا نہیں ہوا کہ اس طرح جہاں ایک نااہل کو اہل ثابت کیا گیا وہیں ایک ایسی غلط روایت قائم کی گئی ہے جس کی نظیر کم از کم ایک ملک کے چیف جسٹس کو قائم نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اور اس غلط روایت قائم کرنے کے چرچے کو اولیت دی جانی چاہیے تھی اور اس بات کا خوب چرچا ہونا چاہیے تھا مگر بد قسمتی سے پاکستانی ذرائع ابلاغ اس بارے میں ناکام رہے ہیں۔ اس پرآشوب دور میں جس سے پاکستان گزر رہا ہے۔ یہ پرآشوب دور ہم سب سے ایثار اور قربانی مانگتا ہے کہ ہم غیرتِ ملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہ صرف اپنے اطوار درست کر لیں بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ دور ہم سب سے من حثیت القوم غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتا ہے۔
ایسے میں ملک کے قاضی القضاہ کے عہدیدار کا یا خاندان کے کسی فرد کا ایسی اندھی ناانصافی اور نااہلی کو جھوٹ اور دہوکے سے اہلیت ثابت کرنا۔ فرح ڈوگر کی ناہلی کو اہلیت میں بدلنے کے لیے ناجائز طور پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنا، ملک کے چیف جسٹس کا تعلیم جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ذمہ دار عہدیداروں کو، اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے۔ اپنے عہدے کے منافی اور شان کے خلاف محض اقربا پروری جیسی سفلی خواہش میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر اپنی بیٹی کی نااہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے کے لیے مجبور کرنا۔ خرد برد اور دوہرا معیار اپنانے پہ مجبور کرنا، انہیں غیر قانونی طور پہ اپنے اختیارات استعمال کرنے کی عادت ڈالنا۔ اور ایک ایسی غلط روایت قائم کرنا جس پر چل کر مستقبل میں پاکستان کے ہر کس و ناکس کو ہر قسم کی اخلاقیات کو تہس نہس کرتے ہوئے اپنی مطلب براری کا رستہ دکھانا کہ جب ایک قاضی القضاہ کہ جس کا کام ہی اس طرح کے معاملات پہ نظر رکھنا اور ان کو روکنا ہے ۔ کہ معاشرے میں مساوات قائم ہو اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں مگر جب قاضی القضاہ خود ایسے معامعلات میں ملوث ہوگا تو ملک اور اہلِ ملک کے مفادات کا تحفظ کے لیے ان کی داد رسی کون کرے گا۔؟
طرفِ تماشہ یہ بھی ہے کہ اپنی حدود سے تجاورز کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مقننہ کی قائمہ کمیٹی کو فرح ڈوگر کیس کی تحقیقات سے ہی روک دیا ہے جبکہ ریاست کے تمام ادروں اور عہدوں پہ مقننہ کو فضیلت ہوتی ہے ۔ اور عدلیہ کو بھی اختیارات و توانائی قوم کے نمائیندوں کی مقننہ سے ہی ملتی ہے۔
حالات و واقعات جیسے بھی رہے ہوں۔ جسٹس ڈوگر کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے عہدے سے استعفٰی دے دینا چاہیے اور اپنے سمیت اس کیس میں ملوث باقی ماندہ لوگوں کو بھی تحقیقات کے لیے پیش کر دینا چاہیے۔ تا کہ صورتِ حال واضح ہو۔ جبکہ مکافاتِ عمل تو ان کے خلاف شروع ہو چکا کم از کم وہ اپنی آخرت کی سرخروئی کا ہی بند و بست کر لیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے قائمہ کمیٹی کی تحقیقات میں اگر روڑے اٹکائے تو یہ ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا کہ بے شک آج پاکستانی عوام غیر فعال ہیں مگر انکی یاداشت اور پرکھنے کی صلاحیت پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس واقعے سے عوام مزید مضطرب ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی سے عوامی مفادات کی نگہداشت کی جائز توقع رکھتے ہیں نہ کہ کسی اقربا پرور چیف جسٹس کے ناجائز مفادات کی نگہداشت کی ۔ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کو کرنا ہے
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
Leave A Reply