کشمير کا مسٔلہ عرصے سے لٹکا ہوا ہے اور ابھي تک صرف پاکستان ہي اس مسٔلے کو حل کرنے کي يکطرفہ کوششيں کرتا رہا ہے۔ اس کوشش ميں نہ ہي بھارت کي طرف سے کوئي پيش رفت ہوئي ہے اور نہ پاکستان کے حليف دوستوں نے پاکستان کي مدد کي ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا دوست امريکہ بھي دور سے اس ڈرامے کا کلائميکس ديکھ رہا ہے اور چند متوازي بيانوں سے زيادہ کچھ بھي نہيں کر پايا۔ يہي حال برطانيہ کا ہے اس نے بھي آج تک سنجيدگي سے اس مسٔلے کو نہيں ليا۔ ہامري نظر ميں چونکہ يہ مسٔلہ برطانيہ کا ہي پيدا کردہ ہے اسلۓ اس سے مدد کي توقع ہي بے کار ہے۔ اقوامِ متحدہ بھي قراردادوں سے آگے نہيں بڑھ سکا۔ ويسے اگر اقوامِ متحدہ چاہتا تو جس طرح اس نے دوسرے کئ مواقع پر مقامي لوگوں ميں ريفرنڈم کرا کے مسٔلے حل کۓ ہيں کشمير پر بھي راۓ شماري کرانے پر زور دے سکتا تھا مگر جيسا کہ ہم نے پہلے کہا اقوامِ متحدہ نے  صرف قراردادوں کي حد تک پيش قدمي کي اس سے آگے کوئي قدم نہيں اٹھايا۔ جس طرح عراق کے خلاف کاروائي کي گئ اور اب ايران کے خلاف اقوامِ متحدہ کو استعمال کيا جارہا ہے اسي طرح کي مدد کشمير کيلۓ بھي کي جاسکتي تھي مگر نہیں کي گئ۔

اگر اب تک کي ساري تاريخ کا جائزہ ليا جاۓ تو يہي بات سمجھ ميں آتي ہے کہ کوئي بھي کشمير کے مسٔلے کو حل نہيں کرنا چاہتا اور نہيں چاہتا کہ پاکستان کشمير کے ايشو سے نپٹ کر ترقي کي راہ پر گامزن ہوسکے۔ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران بھي اس بات سے باخبر ہيں مگر جان بوچھ کر خاموش رہے ہيں اور کشمير کاز کو اپني حکومت کو طويل کرنے کيلۓ استعمال کرتے رہے ہيں۔

ابھي موجودہ حکومت کو ہي ديکھ ليجۓ۔ صدر مشرف نے ابھي تک کيسے کيسے مشورے بھارت کو نہيں ديۓ مگر بھارت ہے کہ سني ان سني سے وقت گزار رہا ہے۔ ہماري تاريخ ميں کشمير کاز کيلۓ اتنا کوئي سابقہ حکمران نہيں بھارت کے آگے نہيں گراجتنا موجودہ صدر اور وہ بھي آرمي کا سربراہ گر رہا ہے۔ اس کےپيچھے کيا راز ہے يہ ہماري سمجھ سے باہر ہے۔ ہم ہيں کہ کشمير کے ايشو کو ختم کرنے کيلۓ اپنے حصے سے بھي دستبردار ہونے کو تيار ہيں اور دوسري بھارت ہے کہ ہميں گھاس تک نہيں ڈال رہا۔ اس کي سب سے بڑي وجہ يہ ہے کہ ہم نے اپنے ہي دوستوں کے دباؤ ميں آکر کارگل سے پسپائي برداشت کي اور اس کے بعد کشميري مجاہدين کي مدد سے ہاتھ کھينچ ليا۔ اس سے بھارت کو شے ملي اور اسے معلوم ہوگيا کہ اب ہمارے دانے ختم ہوچکے ہيں اور دہشت گردي کے ايشو نے ہمارے حکمرانوں کے گھٹنے اتنے زيادہ ٹيک ديۓ ہيں کہ اب بھارت کو ہم سے ايٹمي طاقت کے باوجود کوئي خطرہ محسوس نہيں ہو رہا۔

 ہمارے خيال ميں اب وقت آچکا ہے کہ کشمير کے مسٔلے کے حل کي مزيد تجاويز دينا بند کردينا چاہيئں اور کچھ اور کرنا چايۓ۔ اب ہمیں معلوم ہوجانا چاہۓ کہ بھارت ہمیں مزيد خاطر ميں لانے کيلۓ تيار نہيں ہے۔ ہماري حکومت کو اب چايۓ کہ خاموش ہوجاۓ اور بھارت کي مجبوري کا انتطار کرے ۔ ليکن بھارت تب ہي مجبور ہوسکتا ہے جب اسے مجاہدين کي طرف سے زبردست مزاہمت ملے اور وہ پاکستان کے ساتھ اس مجبوري کے بعد مزاکرات پر تيار ہوجاۓ۔

صدر صاحب اب مزيد اس ايشو پر سوچنا بيکار ہے اور ہمارا مشورہ يہي ہے کہ اب مزيد مت گريۓ اور بھارت کو يہ باور کرانے کي کوشش کيجۓ کہ ہمارے مشوروں کو کمزوري نہ سمجھے بلکہ اس مسٔلے کو حل کرنے کي سنجيدہ کوشش خيال کرے۔