اس وقت بجلی کی کمی صنعتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے مگر حیرانی ہے کہ ہماری حکومت اس سے ایسے لاتعلق ہے جیسے یہ عام سا مسئلہ ہو۔ موجودہ حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود نہ تو لوڈشیڈنگ کو ہنگامی بنیادوں پر ختم کر سکی ہے اور نہ ہی کوئی پلاننگ کر سکی ہے سوائے وفاقی وزیر بجلی راجہ اشرف کے دعوے کے کہ لوڈشیڈنگ ایک سال میں ختم ہو جائے گی مگر انہوں نے بھی یہ بات بناں کسی ثبوت کے کی تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومت لوڈشیڈنگ کو سنجیدہ لیتی اور اسے ایک اہم پروجیکٹ کی طرح ہینڈل کرتی۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلیے ایک ٹیم بناتی جس کی روزانہ میٹنگز ہوتیں اور عوام کو اس کی لمحہ بہ لمحہ کارکردگی سے آگاہ کیا جاتا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کی تاریخ مقرر کی جاتی اور اسے مقررہ مدت میں مکمل کیا جاتا۔ مگر چونکہ ہو سکتا ہے حکومت لوڈشیڈنگ کی آڑ میں جنریٹرز اور سی پی یو بیچنے کے کاروبار میں ملوث ہو اسلیے جان بوجھ کر اس بحران کو طوالت دے رہی ہو۔ ویسے حیرانی ہوتی ہے جب دو چار عوامی جلوسوں کے بعد لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جاتی ہے اور بل بھی کم کر دیے جاتے ہیں اور جونہی عوام اپنی روزی روٹی میں دوبارہ مگن ہو جاتے ہیں یہ لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو ہر عوامی مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر حکومت کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہیے مگر چونکہ لوڈشیڈنگ اس وقت ملکی دہشت گردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے اسلیے چیف صاحب کو لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر سوموٹو ایکشن لینا ہو گا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو چھیڑ کر عوام کی دعائیں لیں اور اس کی طے تک پہنچیں تا کہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ لوڈشیڈنگ کے پیچھے کس کس کا مفاد وابسطہ تھا۔

ہمیں یہ سوچ کر کوفت بھی ہوتی ہے اور حیرانی بھی کہ جب لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی تو ان تمام جنریٹرز اور سی پی یو کا کیا بنے گا جو لوگوں نے اب تک خرید رکھے ہیں اور اب بھی دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ ان پر خرچ کی گئی اربوں روپے کی عوامی دولت ضائع ہو جائے گی اور یہ سکریپ کے بھاؤ بکیں گے۔