آج کے اخبارات پر اگر نظر دوڑائیں تو ہر طرف ایک ہی واویلہ نظر آتا ہے کہ پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔ سینٹ کی بحث ہو، حزب اختلاف کا شور ہو یا امریکہ کے صدر اور آرمی چیف ہوں، ہر کوئی یہی کہ رہا ہے کہ پاکستان ٹوٹ رہا ہے۔

اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر صدر زرداری غیرملکی دورے پر کیوں چلے گئے ہیں؟ اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر حزب اختلاف اور حکومت دونوں چین کی نیند کیوں سو رہی ہیں؟ اگر پاکستان ٹوٹ رہا ہے تو پھر اسے ٹوٹنےسے بچانے کی سعی کیوں نہیں کی جا رہی۔

امریکہ کہتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت کمزور ہے، فوج جمہوری حکومت پر حاوی ہے، پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کھل کر کاروائی نہیں کر رہا۔ حزب اختلاف کہتی ہے سرحد اور فاٹا میں آگ لگی ہوئی ہے، بلوچستان کو شکایات ہیں اور کراچی جل رہا ہے مگر اسلام آباد میں اگر آپ چلے جائیں اور وہ بھی شاہراہ ایوان پر تو کہیں بھی ملک ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔

اگر واقعی ملک ٹوٹ رہا ہے تو پھر زرداری گورباچوف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت بے بس ہے اور فوج بھی اس جرم میں شریک ہے۔ کیا سرحد، بلوچستان اور کراچی کے معاملات کا فوجی کاروائی کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے؟ کیا دہشت گرد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ ملک توڑ دیں گے؟ کیا ملک ٹوٹنے سے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں رہیں گے جن کا شور یورپی ممالک مچا مچا کر دنیا کو ڈرا رہے ہیں۔

اگر واقعی ملک ٹوٹ رہا ہے تو حکمرانو اور سیاستدانو ہوش کے ناخن لو۔ کیا تمہاری دنیا میں یہی کامیابی ہے کہ ملک توڑ کر اس کے ہر حصے پر الگ الگ حکمران بن بیٹھو۔ کیا کراچی کو الگ کر کے الطاف حسین صدر بن کر تاریخ میں مجیب الرحمن کی طرح نام رقم کرانا چاہتے ہیں۔ کیا حکومت کی اتحادی اے این پی صوبائی حکمرانی سے خوش نہیں ہے اور سرحد کو الگ کر کے وہ مرکزی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے؟ کیا پنجاب کےحکمران بلوچستان کوالگ کر کے بہت بڑا معرکہ سر کرلیں گے؟

ان تمام سوالوں کا جواب ایک ہی ہے یعنی خودغرض لوگ کرسی کیلیے اپنی غیرت بھی نیلام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ خود غرض لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اور انہیں صدام حسین کی طرح اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی خود غرضی سے کروڑوں کا ملک کھنڈر بن جائے گا اور اس کی دولت پر جارح قبضہ کر لے گا۔