ہمارے ايک قاري اسير صاحب نے بڑي محنت سے ايک حديث کا ترجمہ کيا ہے۔ دراصل اس حديث ميں نبي پاک صلعم کي پيشين گوئيوں کي تفصيل ہے۔ آخر ميں اسير صاحب نے اپني راۓ بھي دي ہے۔ ہم ان کي تحرير ہوبہو يہاں نقل کر رہے ہيں۔

آخری زمانہ کے لئے آنحضرت کاخطبہٴ گرامی:

ترجمہ :
جابرابن عبداللہ انصاری نےروایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول مختارکے ساتھ حجۃ الوداع میں حج کیا۔ جب پیغمبراعمال حج سے فارغ ہوئے توآپ نے فرمایا ”ایھاالناس ! آج یقینا میں کعبہ کوالوداع کہہ رہاہوں اس کے بعد کعبہ کے درکوحلقہ کیااورباآوازبلندلوگوں کو پکارا۔ تمام اہل مسجدجمع ہوگئے۔ اوربازا ر والے بھی آگئے اس وقت آپ نے فارمایا کہ جوکچھ میں تم سے کہناچاہتاہوں اس کو سنو اورجو موجودنہ ہوں ان تک پہنچادو۔ اس کے بعدآپ نے رونا شروع کیا۔ جس سے تمام حاضرین بھی رونے لگے۔ پھرآپ نے ارشادفارمایا۔ اے لوگو ! خداتم پر رحمت فرمائے۔ تم اس زمانے میں مثل اس درخت کے پتے کے ہو ۔جس کے درمیان کوئی کانٹا نہ ہو۔ اورچالیس سال تک یہی یہ حالت رہے گی ۔ اس کے بعددوسال تک پتے اورکانٹیں ملے جلے ہوں گے پھراس کے بعد کانٹیں نظرآئیں گے جس میں پتہ نہ ہوگا ۔“اور وہ ا یسے لوگ ہوں گے جن میں نہ نظرآئیں گے مگرستمگربادشاہ ،کنجوس مالدار،مال کی طرف رغبت کرنے والے علماء جھوٹے فقیر۔ اس کے بعدآپ نے پھرگریہ شروع کردیا۔تب سلمان اٹھے اورعرض کیا یارسول اللہ یہ سب کس وقت ہوگا۔ حضرت نے جواب دیا۔ اے سلمان یہ اس وقت ہوگا جب علماء کم ہوجائیں گے ۔ زکواة دینابندہوگا۔ انکارکرنے والے ظاہرہوں گے ۔مسجدوں میں آوازیں بلندہوں گی۔ دنیاکو بالائے سراورعلم کوزیرقدم قراردیاجائے گا۔ خودآپس کی گفتگو میں تکذیب کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی محفلوں میں جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ ایک دوسرے کی غیبت کا شیوہ ہوگا۔ حرام کوغنیمت سمجھاجائے گا۔ بڑاچھوٹے پررحم نہ کرے گا۔ اورچھوٹابزرگ کااحترام پیش نظرنہ رکھے گا۔ پس اس وقت ان پر لعنت ہوگی۔ ان کے درمیان دشمن پیداہوجائیں گے۔ دین اسلام میں لفظ اسلام کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ اس وقت انتظارکرنا چاہئے سرخ ہواؤں کے چلنے ۔آسمان سے پتھر برسنے یا چہروں کے مسخ ہوجانے اورزمین کے دھنس جانے کا۔ اوراس امرکی تصدیق خداوندعالم کے اس قول سے ہوتی ہے کہ جوکتاب خدا میں موجود ہے ۔
(قل ھوالقادرعلی ان بیعت علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم ویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض انظرکیف نصرف الایات لعلھم یفقھون(
اس وقت جبکہ بعض اصحاب نے پھرعرض کی یارسول اللہ یہ سب کچھ کب ہوگا ؟ تب فرمایا اس وقت جبکہ نمازوں کوپس پشت ڈال دیاجائے گا۔ شہوتوں کی پیروی کی جائے گی۔ مختلف قسم کے قہوے پئے جائیں گے چائے ،کافی ،قہوہ وغیرہ۔ ماں باپ کوگالیاں دی جائیں گی۔ مرد ا پنی عورت کے احکام پرعمل کریں گے۔ہمسایہ ہمسایہ پرظلم کرے گا۔ بزرگوں کے دل سے رحم جاتارہے گا۔ بچوں میں شرم کم ہوجائے گی ۔مکانوں کی بنیادیں محکم رکھی جائیں گی۔ غلاموں اورکنیزوں پرظلم کیاجائے گا۔ نفس کی خواہش کی وجہ سے گواہے ظلم وستم سے حکمرانی ہوگی بھائی سے بھائی حسدکرے گا۔شرکاء خیانت کریں گے۔ وفا کم ہوجائے گی۔ زناکھلم کھلاکیا جائے گا۔ مرد ، عورتوں کے کپڑوں سے زینت کریں گے ۔عورتیں بے حیا ہوں گی۔ اورحیاکا مقنع عورتوں سے دورہوجائےگا۔ لوگوں کے دل تکبرسے بھرپورہوں گے۔ احسان کم اورحرام کاری ظاہرہوگی۔ گناہان کبیرہ آسان سمجھے جائیں گے لوگ مال کی وجہ سے طالب مدح ہوں گے۔ مال بکثرت گانے بجانے میں صرف کیاجائے گا۔ (سینما وغیرہ ) آخرت کی مطلق فکرنہ ہوگی۔ لوگ صرف دنیامیں مشغول ہوں گے۔ پرہیزگاری کم اورلالچ زیادہ، فتنے اورپریشانیاں بہت ہوجائیں گی۔ مومن ذلیل ،منافق عزیرسمجھاجائے گا۔ مسجدیں اذانوں کی آوازسے معمورہوں گی مگر دل ایمان سے خالی ہوں گے۔ قرآن کوہلکا سمجھاجائے گا۔ چہرے انسانوں کی مثل مگردل شیطانوں کی مثل ہوں گے۔ جیساکہ خداوندعالم کاارشادہے کہ مجھے دھوکادیتے ہیں افحسبتم انماخلقناکم عبثاانکم الیناترجعون الخ ) ” کیاتم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکارپیداکیاہے اورتم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں ہو۔ مجھے قسم ہے اپنے عزوجلال کی کہ اگرتمہارے درمیان پرہیزگار اورمیری عبادت کرنے والے لوگ نہ ہوتے تو یقینا میں تم پربارش کا ایک قطرہ بھی نہ برساتا اورزمین پرگھاس کاایک تنکابھی نہ اگاتا تعجب ہے ان لوگوں پرجن کے مال ، ان کے خدا ہیں اورامیدیں دراز لیکن عمریں کوتاہ۔ وہ اپنے مقاصدتک پہونچنے کا لالچ کرتے ہیں۔ مگر وہ بغیرعمل کے نہیں پہنچ سکتے۔ اورعمل بغیرعقل کے نہیں کیاجاسکتا ۔
پھرفرمایا لوگو وہ زمانہ آنے والاہے جب کہ ان کے پیٹ ان کے خداہوں گے (پرستش شکم ہوگی )۔ یعنی صرف اس کی فکرمیں غرق ہوں گے۔ اوران کی عورتیں ان کاقبلہ وکعبہ ہوں گی۔ اوران کے پیسے اورمال ان کادین ہوں گے۔ ان کے درمیان علاوہ لفظی اسلام وایمان کے کچھ باقی نہ ہوگا۔ قرآن کاصرف درس ہوگا۔ مسجدیں معمورہوں گی مگردل ہدایت سے خالی ہوں گے یعنی وہ لوگ مطلق ہدایت یافتہ نہ ہوں گے ۔ (اوعلمائھم اشرخلق اللہ فی وجہ الارض ) ۔ یعنی ان کے زمانہ کے علماء مخلوقات میں سب سے زیادہ شریرہوں گے ۔اس وقت خداوندعالم ان کوچارچیزوں میں مبتلاکرے گا (۱) بادشاہوں کے جوروستم (۲) قحط (۳) حاکموں و سرداروں کے ظلم (۴) بتوں کی پرستش میں ۔ صحابہ نے یہ سن کرتعجب کیااورعرض کی یارسول اللہ مسلمان ہوکربتوں کی پرستش ؟ کیسے ہوگی ؟ آپ نے فرمایا ان کے نزدیک روپیہ ایک بت ہوگا۔
نوٹ : اگرحضور دماغ وخلوص قلب سے اس خطبہ کامطالعہ کیاجائے توکیا دل بے ساختہ یہ گواہی نہ دے گا کہ تقریبا چودہ سو سال قبل جوکچھ حضور اکرم(ص) نے ارشادفرمایاتھا وہ آج لفظ بہ لفظ پوراہورہاہے گویاحضورکی نگاہ پیغمبری اس معاشرے کومکمل طرح سے ملاحظہ فرمارہی تھی ۔
اگر یہ شایع ھوگیا تو باقی انشاءاللہ آئندہ

اسير صاحب سے اس اي ميل پر رابطہ کيا جاسکتا ہے

aseerg@hotmail.com