اس وقت عوام کے مسائل کو اگر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ انقلاب آیا کہ بس آیا۔ لیکن اگر دوسری طرف عوام کے صبر کو ناپا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ انقلاب ابھی بہت دور ہے۔

جب تک لوگ

بجلی کی لوڈشیڈنگ بارہ بارہ گھنٹے برداشت کر سکتے ہیں

رشوت دیتے ہوئے جہنم سے نہیں ڈرتے

پیدل چلنے والے شخص کو کچلنے والے ڈرائیور کو نہیں پکڑسکتے

تعلیم کے دوہرے معیار کیخلاف آواز بلند نہیں کرسکتے

چوہڑے اور چوہدری کے درمیان برہمن اور شودر والا فرق برقرار رکھتے ہیں

حکمرانوں کے مظالم خدا کا لکھا سمجھ کر برداشت کرسکتے ہیں

کسی بھی پبلک مقام پر لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار نہیں کر سکتے

اپنے گلی محلوں کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے

امام مسجد اور استاد کو اس کا جائز مقام نہیں دیتے

محلے کے بدمعاش کیخلاف اجتماعی طاقت استعمال نہیں کرتے

تب تک انقلاب کے بارے میں سوچنا ہی بیکار ہے۔