چھ سمتبر 1987 کے دن پروین شاکر نے جو نظم لکھی وہ آج کے حالات پر بھی صادق آتی ہے۔ 1987 میں جنرل ضیاء کی حکومت تھی اور آج جنرل مشرف کی حکومت ہے۔

اے خدا!

میرے پیارے سپاہی کی تلوار میں زنگ لگنے لگا ہے

اذانوں سے پہلے جو بیدار ہوتے تھے

اب دن چڑھے تک

چھپر کھٹ سے نیچے اترتے نہیں

دھوپ اگر سخت ہو جائے

بارش ذرا تیز ہوجائے تو

یہ جواں سال

گھر سے نکلتے نہیں

سرحدوں کے نگہبان اب کرسیوں کے طلبگار ہیں

اپنے آقا کے دربار میں

جنبش چشم و ابرو کی پیہم تلاوت میں مصروف ہیں

سرخمیدہ ہیں

شانے بھی اگے کو نکلے ہوئے

بس نصاب تملق کی تکمیل میں منہمک!

میرا دل رو پڑا ہے

اے خدا!

میرے پیارے وطن پر یہ کیسی گھڑی ہے

تراشے ہوئے جسم

آسائشوں میں پڑے

اپنی رعنائیاں کھو رہے ہیں

ذہن کی ساری یکسوئی مفقود ہے

اہل طبل و علم

اہل جاہ و چشم بن رہے ہیں

اور اس بات پر

دیکھتی ہوں کہ مغرور ہیں!

اے خدا!

میرے پیارے سپاہی کو سرحد کا رستہ دکھا

عشق اموال و حب و مناصب سے باہر نکال

اس کے ہاتھوں میں

بھولی ہوئی تیغ پھر سے تھما!