ہماری جمہوری حکومت اگر واقعی ملک میں آمریت کا راستہ روکنا چاہتی ہے تو اسے تعلیمی اداروں میں جمہوریت کا مضمون متعارف کرانا چاہیے جو چھٹی جماعت سے شروع ہو اور ایف ایس سی تک پڑھایا جائے۔ اس مضمون میں مندرجہ ذیل ابواب شامل کئے جائیں۔
جمہوریت کی خوبیاں بیان کی جائیں۔
اچھے امیدوار میں کیا خوبیاں ہونی چاہییں۔
ووٹوں اور اسمبلی ارکان کی اہمیت کیا ہے۔
جمہوری نظام میں ایک ووٹ کتنا قیمتی ہوتا ہے
کس طرح ووٹ قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے
جمہوریت میں جھرلو کیسے پھرتے ہیں
کس طرح نتائج بدلے جاتے ہیں
کس طرح غدار سیاستدان عوام کے کندھے پر بیٹھ کر اسمبلی میں پہنچ کر ملک کا بیڑہ غرق کرتے ہیں
ہم تو بلکہ یہاں تک کہیں گے کہ جمہوریت کا مضمون یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا جائے اور کسی بھی سیاستدان کیلیے اس مضمون میں امتیازی نمبروں سے پاس ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ آرمی کے سٹاف کالج کی طرح سیاستدانوں کا بھی کالج ہونا چاہیے جہاں ان کا کورس پاس کرنا لازمی ہو۔ لیکن کوشش کی جائے کہ اس مضمون کی تیاری اور سٹاف کالج کے کورسز کی تیاری میں کسی غیرملکی کو شامل نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کی مدد لی جائے بلکہ مقامی پروفیسروں، ادیبوں، ایڈیٹروں اور محققین کو مضامین کی تیاری کا کام سونپا جائے۔
یہ دس سالہ جمہوری منصوبہ ہونا چاہیے جس پر عمل کرنے سے ملک جمہوری راستے پر بھی چل پڑے گا اور آمریت کا راستہ بھی روکا جا سکے گا۔
مگر سوال یہ ہے کیا موجودہ سیاسی خاندان اس تجویز کی حمایت کر کے خودغرضی کی بجائے وطن شناسی کا ثبوت دے پائیں گے؟ کیا ہمارے موجودہ حکمرانوں میں اتنی بڑی قربانی دینے کا جگرہ ہے؟ کیا وہ اتنے آزاد ہیں کہ جمہوریت کے روشن مستقبل کیلیے یہ قربانی دے سکیں؟ کیا وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کیلیے کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا وہ نوجوان نسل کیلیے میدان خالی چھوڑنے پر راضی ہو پائیں گے؟