جیو کے مطابق سینیٹر میر محبت خان مری اسلام آباد میں سیٹ بیلٹ کے بغیر گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے گئے مگر چہ جائیکہ وہ آرام سے اپنا چالان کراکر جرمانہ ادا کرتے انہوں نے ٹریفک پولیس کیساتھ الجھنا شروع کر دیا۔ یہ بحث لمبی ہو گئی اور سینیٹر پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔ پاکستان میں چونکہ وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لیے محبت خان صاحب پہلے تو چالیس منٹ گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور بعد میں گاڑی سے باہر نکل کر کافی دیر تک پولیس والوں کیساتھ الجھتے رہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سینیٹر صاحب اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے یہ معاملہ پیارومحبت سے نپٹاتے مگر انہوں نے ہر حکمران کی طرح قانون کی خلاف ورزی پر پکڑے جانا اپنی ہتک سمجھا اور ٹریفک پولیس کیساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔
سینیٹر صاحب اگر سمجھتے تھے کہ ان کیسساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ قانون کیمطابق اپنا چالان کراتے اور بعد میں عدالت میں اسے چیلنج کر دیتے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اتنا شعور ہی نہیں کہ چہ جائیکہ وہ پولیس کی کارکردگی کی تعریف کرتے، وہ قانون کی خلاف ورزی پر پکڑے جانے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اب میڈیا کی آزادی کے بعد انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چپکے سے چالان کرانے میں ہی عافیت تھی۔ اب وہ میڈیا پر بھی آئے اور بدنام بھی ہوئے۔ ہم سینیٹر کے اس عمل کو بیوقوفی ہی قرار دیں گے۔
8 users commented in " بیوقوف "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجناب ، معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ بے وقوف تو ہم عوام ہیں۔ ہر بار انھی ڈراموں کو منتخب کر کے اسلام آباد بھیج دیتے ہیں۔
اِنھوں نے تو جو کرنا ہے، کرتے رہیں گے۔۔۔
ایویں مان جاتا آرام سے
پھر اس میں اور عوامی مصلّی میں کیا فرق رہ جاتا؟
ان کا چالان ہو تو بھی ان کو خبروں میں جگہ چاہئے
عزت بیستی ان کی ہوتی نہیں کہ اس کی فکر کریں
ڈفر بھائی خُوب کہا۔
میں ایک دن پریشان تھا اور ایف 8 سے جی 10 بہت جلد پہنچنا تھا ۔ میں جناح ایوینیو پر تھا جہاں رفتار کی حد 65 کلو میٹر تھی ۔ مجھے سارجنٹ نے رکنے کا اشارہ کیا ۔ میں رک گیا اور وجہ پوچھی معلوم ہوا 84 کی رفتار سے جا رہا تھا ۔ میں نے کہا “میری بہت سخت غلطی ہے آپ نے درست روکا آپ چالان کیجئے”۔ خلافِ توقع سارجنٹ نے پوچھا “آپ پریشان نظر آ رہے ہیں”۔ میں نے ہاں کہہ کر ایک فقرے میں وجہ بتائی ۔ اُس نے ہاتھ ملا کر کہا “آپ جايئے”۔ اس دن کے بعد سے میری نظر سپیڈومیٹر کی سوئی پر رہتی ہے
بس جی “انا” آڑے آ گئی ہوگی کہ میں سیاست دان اپنا چالان کٹواؤں۔ یہ “توہین” برداشت نہیں ہوئی البتہ اس کے چکر میں دنیا کے سامنے “بیستی” ہو گئی 🙂 ۔
چالان، عزت ، بیستی، ووٹ، بے وقوف۔۔۔۔۔
گھر کے مالک کا کوئی ملازم چالان کرسکتا ہے
ہم سب تو ملازم بھی نہیں۔۔
بے دام کے غلام ہیں۔۔۔
اس لئے ۔۔۔ چپ۔۔۔
بہت خوب حعفر بھائ یقینا یہ غلام کی گستاخی ہی کہی جائیگی… غلآم ! اور …آقآ کا چالآن کرے؟
یہ تو شروع سے ہی پاکستانی عہدے داران کرتے آرہے ہیں کچھ نیا کیا ہے؟
Leave A Reply