گوجرہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسیحی برادری کے گھیراؤ جلاؤ کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ مرید کے میں ایک مسلمان کو قرآنی آیات کی بیحرمتی کے جرم میں اس کی اپنی ہی مذہبی برادری نے قتل کر دیا۔ خبر کے مطابق فیکٹری مالک اور ملازموں کے بیچ تنخواہیں بڑھانے کا جگھڑہ چل رہا تھا کہ فیکٹری مینجر نے یہ افواہ پھیلا دی کہ فیکٹری مالک نے قرآنی آیات والا کیلنڈر پھاڑ کر قرآن کی بیحرمتی کی ہے۔ پھر کیا تھا مولویوں نے مساجد میں اعلانات کرنے شروع کر دیے اور پورا گاؤں فیکٹری کی طرف دوڑ پڑا۔ مسلمانوں نے نہ صرف اپنے ہی مسلمان بھائی کی فیکٹری کو آگ لگا دی بلکہ اسے محافظ سمیت قتل کر دیا۔
روز مرہ زندگی میں ہم لوگ قرآنی آیات زمین پر بکھری روزانہ دیکھتے ہیں تب ہمیں قرآن کی بیحرمتی کا احساس نہیں ہوتا اور جب غیرت جاگتی ہے تو قرآنی آیات کو پھاڑنے کی سنی سنائی بات پر جاگ اٹھتی ہے۔ ہماری غیرت نہ تو ڈرون حملوں کیخلاف جاگتی ہے، نہ غائب شدہ پاکستانیوں کی وجہ سے جاگتی ہے، نہ حکمرانوں کی عیاشیوں کیخلاف جاگتی ہے، مگر ایک افواہ کی وجہ سے جاگ اٹھتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستانی ماڈریٹ مسلمان ہیں ان کی بہت کم تعداد پانچ وقت کی نمازی ہے۔ قرآن کے ترجمے تک سے اکثریت واقف نہیں ہے۔ ہم مسلمان اب عیسائیوں کی طرح ہفتے میں ایک دفعہ مسجد جانے والے بن چکے ہیں مگر ہم سے ایک عام آدمی کی چھوٹی معصوم سی خطا معاف نہیں ہوتی اور ہم قانون کو ہاتھ میں لینے میں ایک سیکنڈ دیر نہیں لگاتے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ گوجرہ کیساتھ ساتھ مرید کے کے مجرموں پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور انہیں قلیل مدت میں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ مگر کیا جائے حکومت بھی مولویوں سے ڈرتی ہے اور وہ ووٹ گنوانے کا رسک کبھِی نہیں لے گی۔ دونوں مقدمات لٹک جائیں گے اور پھر وقت کیساتھ ساتھ فراموش کر دیے جائیں گے حتی کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما ہو جائے گا۔
8 users commented in " جاہلیت کی انتہا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبدقسمتی سے ہونا تو یہی ہے کہ دو رنگیلے بھائیوں کی جوڑی نے اسلام پسندی کی جو چھاپ بنا رکھی ہے اگر مولویوں سے بگاڑیں گے تو وہ چلی جائے گی اور پھر ووٹ بھی۔ ویسے بھی اب شیر کا معاملہ کچھ دب سا گیا ہے ان معاملات کی وجہ سے وگرنہ بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔
شاید آپکے علم میں سکھر میں پیش آنیوالا واقعہ نہیں آیا۔ کل ٹی وی رپورٹس کے مطابق ایک خاتون پر قرآن کی بےحرمتی کا الزام لگا کر مارنے کی کوشش کی گئ۔ پولیس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے جسکی میں اس قوم کے کرتوتوں کی وجہ سے توقع نہیں رکھتی۔
اس قوم کو ہمہ وقت ایک مداری کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں اپنی ڈفلی پر نچائے بس جیسے ہی ایسا کوئی ملتا ہے یہ ناچنا شروع کردیتی ہے اب اس پاگل ہاتھیوں کے ناچ میں کون کون کچلا جاتا ہے یہ اس کا نصیب 🙁
سلام پاکستان جی
چند دنوں میں یہ واقعات تسلسل سے کیوں ھو رھے ھیں – ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی درون حملوں کے ضروت نہیں بس توہینِ رسالت یا توہینِ قرآن کا کہہ دیں ھم اپنے شہر کے شہر خود جلا دیں گے اپنے آپ کو جلتا دیکھ کر بھی عقل سے کام نہیں لیں گے
سعدیہ سحر بی بی ! اور عبداللہ بھائی کے تبصرے انتہائی مایوس کن مگر حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات جتنے افسوس ناک ہیں اتنے ہی قابل مذمت بھی۔ ان واقعات کا نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عدالتی سطح پر بھی رد عمل ہونا چاہیے تاکہ عوام میں موجود عدلیہ کا احترام برقرار رہ سکے۔
دوسری طرف میڈیا کے بعض عناصر کی جانب سے اس طرح کے واقعات کی آڑ لے کر، توہین رسالت کے قانون کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ جو کہ سراسر بے بنیاد ہے۔ توہین رسالت کے قانون کے ایک مکمل لائحہ عمل ہے جس میں یہ واضھ درج ہے کہ سزا دینے کا اختیار کسی ایرے غیرے کو نہیں بلکہ مخصوص منتخب حضرات کو ہے۔
جو لوگ اس قانون پر تنقید کرکے اس ختم کرانے چاہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی اقلیتوں پر ‘نا معلوم‘ افراد کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے افراد کسی قانون و مذہب کو نہیں مانتے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، ناکہ انتشار و افتراتفری کا۔
محمد اسد اگر توہین رسالت پر قرارواقعی سزا ملنے لگے تو ہم مسلمان سب سے زیادہ تعداد میں یہ سزا بھگتیں گے خیر یہاں نہ سہی وہاں تو اللہ اور اس کا رسول دیں گے نا ایسے مسلمانوں کو توہین مزہب اور توہین رسالت کی سزا!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090702_christian_attack_fz.shtml
پولیس کے مطابق سنی تحریک کے ایک مقامی رہنما قاری لطیف نے معاملہ کو بگاڑا اور اگلے روز مسجد سے اعلانات کرائے گئے کہ مسیحوں نے توھین رسالت کی ہے۔پولیس کا کہنا کہ قاری لطیف نے تیس چالیس نوجوانوں پر مشتمل ایک فورس بھی بنارکھی ہے جس میں بارہ اور چودہ برس کے لڑکے بھی شامل ہیں۔
Leave A Reply