آئیں سیاست ویاست کے چکر سے باہر نکلیں اور تھوڑی دیر کیلیے ملکی حالات کا رونا رونے کی بجائے ایک رومانوی کہانی گھڑیں۔

ریاض عرف راجو والدین کا ہونہار اور محنتی بچہ تھا۔ ایک متوسط طبقے کے محلے کی گلیوں کی طرح اس کی گلی بھی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی۔ اکثریت کے اپنے گھر تھے مگر چند ایک کرائے کے مکان بھی تھے۔ گلی کیا تھی بس یہ سمجھیں کہ ایک حویلی کے درمیان سے نکلتا ہوا رستہ تھی۔ پندرہ بیس گھروں کا کنبہ یک جان دو قالب کی طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔

راجو میٹرک میں پہنچا تو اس کی جوانی نے اس کے اندر ہلچل مچانی شروع کر دی۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے لڑکے لڑکیوں کی ایک دوسرے کیساتھ چھیڑ چھاڑ دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ کئی ایک بار تو عمر سے بڑے لڑکوں نے اسے پیغام رساں کے طور پر بھی استعمال کیا۔ ایک لڑکی لڑکا ایک کمرے کے کوارٹروں میں اپنے والدین کیساتھ رہتے تھے جن کا ایک ہی غسل خانہ تھا اور وہ بھی بناں دروازے کے۔ جب بھی لڑکی پانی بھرنے غسل خانے میں گھستی، لڑکا بھی پانی پینے کے بہانے لڑکی کو چھیڑ لیتا۔ ان کوارٹروں کا درمیانی راستہ بہت تنگ تھا۔ راجو نے کئی بار دیکھا کہ لڑکا چلتے چلتے لڑکی سے ٹکرا جاتا مگر لڑکی کوئی شکایت نہ لگاتی۔

چند ہفتے قبل پشاور سے ایک فیملی کرائے کے مکان میں آ بسی۔ یہ فیملی تین افراد پر مشتمل تھی ماں باپ اور بیٹی۔ جب سے یہ لوگ محلے میں آئے تھے، ان کو کسی نے غور سے دیکھا تک نہ تھا۔ نہ ہی انہوں نے کسی سے دعا سلام کی اور نہ ہی محلے والوں کو ہمت پڑی کہ وہ ان سے اپنا تعارف کرائیں۔ وجہ سیدھی سی تھی۔ لمبے تڑنگے مرد نے ایسی شکل بنا رکھی تھی کہ پورا بدمعاش لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر چھائی پٹھانوں والی غیرت بھری کرختگی محلے داروں کو ان سے ملنے میں رکاوٹ تھی۔ آدمی صبح منہ اندھیرے کام پر چلا جاتا اور رات گئے واپس آتا۔

لڑکی کو اتفاق سے ایک آدھ دفعہ راجو کے دوستوں نے دیکھ لیا تھا اور اس کی خوبصورتی کے چرچے عام ہو گئے۔ راجو کے میٹرک کے امتحانات شروع ہونے والے تھے اور وہ ان کی تیاری میں مصروف تھا۔ گلی سے گزرتے ہوئے راجو نے کئی دفعہ کوشش کی کہ اسے بھی لڑکی نظر آ جائے مگر ناکام رہا۔ جس دن راجو کا پہلا پرچہ تھا گلی سے گزرتے ہوئے اسے لڑکی گھر کے دروازے سے جھانکتی ہوئی نظر آئی۔ کالے دوپٹے میں اس کے چہرے کی سفیدی اسے ایسے لگی جیسے چاند بدلیوں سے جھانک رہا ہو یا پھر کوئلے کی کان میں کسی نے دیا روشن کر دیا ہو۔ اس دن راجو صرف اس کی آنکھیں اور پیشانی ہی دیکھ پایا۔ سولہ برس کی عمر کے لڑکے کو عاشق بنانے کیلیے اتنا دیدار ہی کافی تھا۔ انہی خیالوں میں راجو امتحانی مرکز جا پہنچا اور اس کا پہلا پرچہ توقع سے بڑھ کر اچھا ہوا۔

اگلے دن راجو دوسرے پرچے کیلیے نکلا تو لڑکی کو پھر دروازے میں کھڑا پایا۔ اس دن اسے لڑکی کے ہاتھ نظر آئے۔ ہاتھ کیا تھے بس چاندی کے کٹورے تھے۔ راجو کا دل چاہا کہ وہ لڑکی کے ہاتھ چوم لے مگر ڈر کی وجہ سے وہ کن انکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے گزر گیا۔  اس دن بھی راجو کا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ جس طرح لوگ پتھروں کو اپنے لیے خوش قسمتی سمجھ کر انگوٹھیوں میں سجا لیتے ہیں اسی طرح راجو نے بھی لڑکی کو اپنے لیے لکی مان کر دل میں بسا لیا۔ ہر روز وہ لڑکی کو دیکھ کر پرچہ دینے جاتا اور اس کا پرچہ پہلے پرچے سے بھی اچھا ہوتا۔ ان دو ہفتوں میں وہ ایک دوسرے سے اتنے مانوس ہو گئے کہ راجو جب بھی گلی سے گزرتا، ان کی آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکراتیں اور دونوں زیرِ لب مسکرانے لگتے۔

راجو کو لڑکی کے سفید ہاتھ پہلے ہی بھلے لگتے تھے مگر ایک دن جب اس نے سفید ہاتھوں پر مہندی لگی دیکھی تو وہ اپنے ہواس کھو بیٹھا۔ اس دن اسے خیال آیا کیوں ناں وہ لڑکی کے دودھ میں نہائے ہاتھوں میں اپنی کالے نگ والی انگوٹھی پہنا دے یہ وہی امتزاج پیدا کرے گی جو سفید چہرے پر کالا دوپٹہ کرتا ہے۔ ایک دن ہمت کر کے راجو نے انگوٹھی اس کی طرف اچھال دی اور اس نے اگلے دن دیکھا کہ لڑکی نے انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن رکھی ہے۔

یہ روٹین جاری تھی کہ راجو کا آخری پرچہ سر پر آن پہنچا۔ تب تک راجو بہت سارے پلان بنا چکا تھا۔ یعنی امتحانات کے بعد وہ کس طرح لڑکی سے ملنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی سوچتا والدہ کو ان کے گھربھیچے گا، کبھی سوچتا کرکٹ کی بال اس کے گھر پھینک کر دروازہ کھٹکھٹائے گا، کبھی اپنی پتنگ ان کے گھر پھینکنے کا خیال اسے آتا، کبھی سوچتا جونہی لڑکی دروازے پر آئے گی وہ اسے سلام کرے گا۔ کبھی کبھی تو اس کا دل کرتا جب گلی سنسان ہوتو وہ اس سے لپٹ جائے۔

جس دن راجو کا آخری پرچہ تھا، وہ کچھ زیادہ ہی بن سنور کر گھر سے نکلا۔ لیکن اس دن لڑکی دروازے سے جھانکتی ہوئی اسے نظر نہیں آئی۔ وہ بہت مایوس ہوا اور اس کے ذہن میں عجیب سے وسوسے جنم لینے لگے۔ انہی خیالوں میں وہ کمرہ امتحان میں داخل ہو گیا مگر آج اس کا دل کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ پورے تین گھنٹے لڑکی کے بارے میں ہی سوچتا رہا اور پرچہ اچھی طرح حل نہ کر سکا۔

راجو پرچہ دے کر واپس آتا تو اسے پتہ چلا کرائے دار مکان خالی کر کے جا چکے ہیں۔ وہ گئے کہاں کسی کو معلوم نہیں۔ راجو رزلٹ آنے تک لڑکی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا مگر لڑکی اسے نہیں ملی۔ جب نتیجہ آیا تو تمام پرچوں میں اس کی فرسٹ پوزیشن تھی سوائے آخری پرچے کے جس میں وہ فیل ہو چکا تھا۔ اس نے پرچہ دوبارہ دینے اور آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ماں باپ سے تو تو میں میں ہونے لگی اور ایک دن اس نے گھر چھوڑ دیا۔ اس نے اپنے ایک دوست سے ادھار لیکر ٹرین کی ٹکٹ خریدی اور کراچی پہنچ گیا۔ اس وقت کراچی شہر ایسے عاشقوں کیلیے پناہ گاہ کا کام دیتا تھا۔

وہ اپنے دوست کے دوست کے ہاں رہنے لگا اور اس کا مہمان ساجد جنگ اخبار کا فوٹو گرافر تھا۔ ساجد نے اسے فوٹو گرافی سکھانی شروع کر دی۔ چھ ماہ بعد ہی ساجد نے راجو کو ایک مقامی اخبار میں فوٹو گرافر بھرتی کرا دیا۔ وہ نگر نگر پھرتا اور غیرمعمولی تصاویر بنا کر اخبار کے ایڈیٹر کو دیتا۔

ساجد  کو لاٹری کھیلنے کا بھی شوق تھا اور یہ لت راجو کو بھی پڑ گئی۔ ایک دن راجو لاٹری کا ٹکٹ خریدنے دکان میں گھسنے لگا تو اسے ایک نوجوان عورت ٹوپی والے برقعے میں بھیک مانگتی نظر آئی۔ اس کی گود میں چھ ماہ کا ایک سرخ و سفید رنگ کا بچہ بھی تھا۔ راجو نے برکت کے طور پر ایک روپیہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا کہ شاید اسی نیکی کے بدلے اس کی لاٹری نکل آئے۔

ہفتے کے آخر میں جب وہ لاٹری کا نتیجہ معلوم کرنے اسی دکان پر گیا تو اسے وہی عورت دوبارہ بھیک مانگتی نظر آئی۔ جونہی اس نے بھیک مانگنے کیلیےاپنا ہاتھ بڑھایا راجو کی نظر کالے نگ والی انگوٹھی پر پڑ گئی۔ اس نے پوچھا یہ انگوٹھی تم نے کہاں سے لی اور تم کہاں سے کراچی آئی ہو۔ اتنی دیر میں لڑکی راجو کو پہچان چکی تھی۔ اس نے ٹوپی والے برقعے سے چہرہ باہر نکالا تو راجو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اسے پاس والے جدید ریسٹورنٹ میں لے گیا اور دونوں ایک دوسرے کو اپنی آپ بیتی سنانے لگے۔

لڑکی نے بتایا کہ اس کا باپ اسے ایک اور بوڑھے پٹھان کے ہاتھوں بیچ کر پشاور واپس چلا گیا اور بوڑھا خاوند اسے کراچی لے آیا۔ جب تک پٹھان زندہ رہا اس کے دن اچھے گزرے مگر بوڑھا کب تک جوانی کے سامنے اپنا بڑھاپا چھپاتا۔ ایک دن وہ اتنا مایوس ہوا کہ اس نے خودکشی کر لی۔ بوڑھے کی اولاد نے اسے گھر سے نکال دیا اور وہ تب سے بھیک مانگ کر اپنے بچے کا پیٹ پال رہی ہے۔

راجو نے اسے ساتھ لیا اور لاٹری کا رزلٹ معلوم کرنے لگا۔ جب دکان دار نے اسے بتایا کہ وہ پانچ کروڑ کی لاٹری جیت چکا ہے تو اسے اپنی قسمت پر یقین نہ آیا۔ وہ بھاگا بھاگا ساتھ والے بنک گیا اور پانچ کروڑ کا چیک وصول کر لیا۔ اب وہ کبھی چیک کو دیکھتا تو کبھی اپنی لکی محبوبہ کو۔ اس نے اسی وقت لکی محبوبہ شادی کر لی اور پھر وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ لکی محبوبہ ساری زندگی اس کی قسمت بن کر اس کے ساتھ چمٹی رہی اور وہ دولت میں کھیلتے رہے۔