حضرت امام حسین کبھی شکست نہ کھاتے اگر اس وقت کے مسلمان یزید کا ساتھ نہ دیتے۔
سلطان ٹیپو کبھی شہید نہ ہوتا اگر اس کی فوج کا سپہ سالار دشمنوں کیساتھ جا نہ ملتا۔
ہندوستان پر کبھی انگریز قبضہ نہ کر پاتے اگر راجے مہاراجے غداری نہ کرتے۔
مشرقی پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا اگر وہاںکے لوگ نہ چاہتے۔
بابری مسجد کبھی نہ گرائی جاتی اگر ساری دنیا کے مسلمان ممالک بھارت کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دیتے۔
جنرل ایوب، ضیاء، پرویز مشرف کا اقتدار کبھی اتنا طویل نہ ہوتا اگر سیاستدان ان کا ساتھ نہ دیتے۔
لال مسجد کا سانحہ کبھی رونما نہ ہوتا اگر مسلم لیگ ق مشرف کا ساتھ نہ دیتی۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ وہ قوم تب تک شکست نہیں کھا سکتی جب تک اس کے اپنے افراد غدار نہ بن جائیں۔
یعنی ترقی کیلیے ضروری ہے کہ غداروں کی پرورش یعنی افزودگی روکی جائے۔ غداروں کی افزودگی روکنے کیلیے ضروری ہے ہم اپنی آنے والی نسل کو ایسے ٹیچر مہیا کریں جو اسے اعلٰی پائے کا انستان بنا دیں۔ ٹیچر تبھی اچھے ملیں گے جب والدین اپنے بچوںکی پرورش اچھے طریقے سے کرنا چاہیں گے۔ والدین تبھی بچوں کی تربیت اچھی طرح کریں گے جب ان کا مشن دولت اکٹھی کرنے کی بجائے اخلاقی اقدار کو سنوارنا ہو گا۔ یعنی جو کچھ کرنا ہے ہم نے خود کرنا ہے۔
16 users commented in " کبھی نہ ہوتا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمسلمان عقل کب پکڑیں گے؟؟؟؟؟
آپ نے بہت ساری متنازعہ اور مختلف باتوں کو ایک ساتھ ڈالدیا ہے۔ یہ تو کافی سارے اگر اور چایئے کے ساتھ بھی کسی نتیجے تک نہیں جا سکتے۔ یہ اور بات کہ آپ اپنے حسن ظن کا کرشمہ دکھادیں۔ اور اس پر اڑ جائیں۔
میں ذہانت کا پرستار ہوں اور آپ کی اس پوسٹ میں سے مجھے یہی خوشبو آئی۔ غالب نے کہا تھا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، آپ نے فرمایا کہ یوں نہ ہوتا تو کیا ہوتا، بات ایک ہی ہے اور بلاشبہ جذبہ محرکہ بھی ایک ہی ہے۔ دراصل یہ سب باتیں جن پر آپ کی نگاہ ٹھہری ہے، مرض کی علامات تو ہیں، اصل سبب نہیں ہیں۔ اصل سبب ہمارے اپنے اندر سوچنے کی خواہش کا نہ ہونا ہے۔ ہم میں سے اکثریت یہ چاہتی ہے کہ کوئی جینیئس ہمیں بتا دے کہ مسائل کا حل کیا ہے۔۔۔ اور جینیئس کی ہمیں پہچان نہیں ہے چنانچہ جب ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کر آگے بڑھنے کی موجودہ کشمکش میں دانا اور مخلص اذہان شامل ہی نہیں ہو پاتے اور یوں زرپرورردہ میڈیا انہیں جگہ ہی نہیں دیتا، تو ہماری نگاہیں پراپیگنڈے کے بانس پر چڑھے ہوئے غبارہ جینیئس پر اٹکتی رہتی ہیں۔ میں نے سوچا ہے کہ اب میں خود ایک بلاگ بناؤں جس کو پرنٹ میڈیا پر بھی شہرت دوں اور وہاں بولنے والے کی ذات نہیں بلکہ بات کی بنیاد پر اس کے حوصلے اور اخلاص کے بار آور ہونے کا سامان کروں، میں انشاء اللہ آپ کے ان صفحات سے بھی نگارشات اٹھاؤں گا اور اس کے ریفرنس کے ساتھ غضب ڈاٹ بلاگ سپاٹ پر آویزاں کروں گا۔ میری خواہش یہ ہے کہ اب مسائل کی رننگ کمنٹری کی بجائے ان کے حل کو فوقیت دی جائے اور یاد رکھنا ہو گا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کر دینے سے مسائل ختم نہیں ہوتے۔ میری نگاہ سے ایک مقالہ ایسا گزرا ہے جس میں وہ سب موجود ہے جس کے لیے انسانیت صدیوں سے تڑپ رہی ہے۔۔۔ لیکن میں اس احتمال کے پیش نظر اس مقالے کا انٹرنیٹ اتہ پتہ بتانے سے گریزاں ہوں کہ میرا یہ پیغام کہیں اس مقالے کا پبلسٹی میسیج نہ تصور کر لیا جائے۔
خواجہ راشد
آپ کی باتوںمیں بھی خلاص اور ملک سے محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل بھی ساتھ ہی بیان کر دیا کریں اور اس مسئلے کا حل بھی آخر میں ہم نے پیش کیا ہے جو آپ کے حل سے مطابقت رکھتا ہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنا بلاگ شروع کریںتا کہ ہمیںبھی آپ کے خیالات جاننے کا موقع ملے۔ اگر مقالے کا لنک دے دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
عنیقہ صاحبہ
آپ کی بات درست ہے مگر ہم نے صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ جب تک انسان خود سے غداری نہیں کرتا، اس کا کوئی نقصان نہیں کر سکتا۔
فرحان صاحب
اسی سوال کے جواب کیلیے ہم نے ایک سروے شروع کیا ہوا ہے جس کے اب تک کے نتائج مسلمانوں میں بڑھتی مایوسی کی عکاسی کر رہے ہیں۔
اپنے عمرہ جاتی بھائیوں کی بھی کوئی کرتوت ڈال دیتے تو شاید بات مکمل ہو جاتی ۔
درست۔
مگر میری ذاتی رائے میں آپ کی کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں۔ آپ رقم طراز ہیں۔۔۔ہندوستان پر کبھی انگریز قبضہ نہ کر پاتے اگر راجے مہاراجے غداری نہ کرتے۔۔۔ ہندوستان پہ انگریزوں کے قبضے میں صرف راجوں مہاراجوں کی غداری کا ہی حصہ نہیں۔ بلکہ اسمیں مسلمانوں کی وہ کوتاہیاں بھی شامل ہیں جو انہوں نے ہندؤستان پہ انگریزوں کے قبضہ کرنے سے پہلے اکبر کی ناخواندگی کے ہاتھوں مطلق العنان شخصیت کی وجہ سے چھاپے خانے کو ھندوستان میں نہ نپنے دینا اور تعلیم کی ترقی و ترویج کے لئیے کچھ نہ کرنا۔ جبکہ جہانگیر اور شاہجہان وغیرہ کا انگریزوں کو بے جا طور پہ تجارتی مراعات دینا اور انھیں ساحلوں کے ساتھ ہر قسم کی تجارتی کوٹھیاں یا قلعے بنانے کی اجازت دینا اور بعد ازاں اورنگ زیب عالمگیر کا جنوبی ھندوستان کی آزاد مسلم ریاستوں کو بزورِ بازو کو اپنی شہنشاہیت میں ضم کر لینا۔ کیونکہ جنوبی ھندوستان کی ساحلی مسلم ریاستیں جب تک قئم رہیں انھوں نے جنوب کی طرف سے ھندوستان پہ حملہ آور ہونے والوں کا ڈت کر مقابلہ کیا اور وہ ریاستیں سمندری لڑائی میں ماہر دستے اور جنگی بحری بیڑے رکھتی تھیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ساحلوں کی حفاظت کی ۔ مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر نے صدیوں سے آزاد ان ریاستوں کو اپنی شہنشاہیت میں تو شامل کر لیا مگر ہندؤستان اپنے جنوبی ساحلوں کی حفاظت سے محروم ہوگیا۔ جس کا فائدہ انگریزوں اور دیگر مغربی اقوام نے اٹھایا اور جنوب سے اپنی فوجیں اتاریں۔
وہ غلطی آج کا پاکستان بھی دہرا رہا ہے اور پاکستان کے شمال میں واقع آزاد علاقوں پہ زبردستی پاکستان کی رٹ قائم کرنے کو بضد ہے ، جس طرح پاکستان کے شمالی علاقے پاکستان کے لئیے بفر زون کا کام دیتے ہیں اور ان علاقوں کے قبائل نے ہمیشہ شمال سے حملہ آوروں کی مزاحمت کی ہے، کچھ ایسا معاملہ تب ھندوؤستان کی جنوبی مسلم ساحلی ریاستوں کا تھا۔
اسکے علاوہ بھی مسلمان فرمانرواؤں نے بہت سی پے درپے غلطیاں اور مستیاں کیں جن کا نتیجہ آپ جانتے ہیں ۔ جس طرح گھڑی کی گھنٹے والی سوءی بغور دیکھنے سے ساکت نظر آتی ہے مگر وہ چل رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح وقت ریاستوں میں ایولیشن ایک ایسا عمل ہے جس کا اثر دہائیوں اور بعض اوقات صدیوں بعد ظاہر ہوتا ہے ۔ جس طرح ہوا یا پانی اپنے مسلسل عمل سے دھیرے دھیرے چٹانوں کی شکل بدل دیتے ہیں اسی طرح قومی غلطیوں کا خمیازہ دھیرے دھیرے بتدریج بڑھتا رہتا اور جب اسکا احساس ہوتا ہے تب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اور یہ عمل ھندوستان میں مسلمان فرمارواؤں نے ھندوستان کے ساتھ روا رکھا۔ کہ مورخ اگر کسی ایک کو الزام دینا چاہے تو الزام نہ دے سکے ۔ مگر بحثیت مجموعی مسلمان فرماروا ھندوستان پہ انگریزوں کے قبضے کے ذمہ دار ہیں۔ ھندو راجوں اور مہاراجوں اور غدار مسلمان نوابوں وغیرہ کی غداری نے اس عمل کو اور بھی آسان بنا دیا جس کی بنیادیں خود مسلمان فرمارواؤں رکھیں تھیں۔
آپ رقمطراز ہیں۔۔۔مشرقی پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا اگر وہاںکے لوگ نہ چاہتے۔۔۔۔
مشرقی پاکستان وہاں کے لوگوں کے چاہنے یا نہ چاہنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹا تھا ۔ بلکہ مشرقی پاکستان ہم مغربی پاکستانیوں کے چاہنے کی وجہ سے ٹوٹا۔ کینکہ ہم نے بنگالیوں کے پاس علیحدگی کے علاوہ کوئی آپشن کوئی رستہ ہی نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ کسی طور ہم سے الحاق یا اتفاق رکھتے۔
آپ نے لکھا ہے ۔۔۔۔۔ لال مسجد کا سانحہ کبھی رونما نہ ہوتا اگر مسلم لیگ ق مشرف کا ساتھ نہ دیتی۔۔۔
لال مسجد کے اندوہناک واقعے کی اس طرح پذیر ہونے پہ ق لیگ شاید راضی نہیں تھی ۔ اگر راضی تھی بھی تو مشرف نے اپنی سیمابی فطرت کے ہاتھوں اور امریکہ کی خوشنودی کے لئیے لازما اٹھانا تھا خواہ اسمیں کوئی سی بھی پاکستان کی سیاسی جمائت ملوث ہوتی یا نہ ہوتی ۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد کے المناک واقعے پہ لوگ مشرف کو ہی ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ جبکہ اس وقت کی ساسی حکومت کو اس معاملے میں ملوث نہیں گردانتے۔
آپ تحریر کرتے ہیں ۔۔عراق پر امریکہ کبھی قبضہ برقرار نہ رکھ پاتا اگر شیعہ اس کا ساتھ نہ دیتے۔۔۔۔
اسمیں کوئی شک نہیں کہ عراق کے شعیان کو صدام حسین اور بعث پارٹی سے شدید نفرت تھی ، مگر وہ امریکہ کے بھی سخت خلاف تھے۔ اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ امریکہ نے شعیہ اور سنی اختلافات کو اپنے مفادات کے لئیے اپنے حق میں استعمال کیا اور اسمیں اسے کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی، مگر یہ کہنا کہ اگر شیعانِ عراق نہ چاہتے تو امریکہ عراق پہ قابض نہیں ہوسکتا تھا ۔ یہ بات درست نہیں ، کیونکہ نہ صرف عراق بلکہ مشرق وسطٰی کے شعیان اپنی سیاسی بالیدگی کا مرکز ایران کو سمجھتے ہیں۔ حزب اللہ کی طرح انکی سوچ پہ ایران اور شام اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو دونوں ممالک ہی امریکہ کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور وہ کبھی بھی یہ نہ چاہیں گے کہ امریکہ ان کے پڑوس میں کسی ملک پہ قابض ہو اور وہاں اسکے آدے کسی دن ان کے خلاف استعمال ہوسکیں۔ عراق میں شعیوں اور امریکی افواج کی بہت سی خونریز جھڑپیں بھی ریکارڈ پہ ہیں۔ اس لئیے کوشش کیا کریں کہ مسلکی اختلافات کو ایسے موضوعات میں شامل نہ کیا کریں جن سے پہلے سے ہی تقسیم شدہ مسلم اممہ مزید تقسیم ہو۔ اس طرح لاشوری طور پہ بالواسطہ آپ وہی کام کر رہے ہیں جو امریکہ وغیرہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئیے کرتے ہیں۔
آپ گویا ہیں۔۔۔افغانستان میں طالبان کبھی ڈرون حملوں سے نہ مرتے اگر ہماری فوج اور مقامی لوگ جاسوسی نہ کرتے۔۔۔۔
جبکہ افغانستان کے اندر ڈرون حملوں میں پاکستانی فوج کبھی بھی ملوث نہیں رہی۔ البتہ افغانستان کے خلاف پاکستان میں فوجی اڈے اور ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ فراہم کر کے پاکستان کی حکومت اور فوج نے قابلِ تحسین کام نہیں کیا تھا۔
ممکن ہے آپ پاکستان کے شمالی علاقے کہنا چاہ رہے ہوں مگر روانی میں افغانستان لکھ گئے ہوں، بہر کیف۔
آپ فرماتے ہیں۔۔۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ وہ قوم تب تک شکست نہیں کھا سکتی جب تک اس کے اپنے افراد غدار نہ بن جائیں۔۔۔۔
میں اسمیں کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ غداری یا غدار افراد کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ہمیں خود بھی اپنے بازؤں پہ انحصار کرنے عادت ڈالنی ہوگی ۔ اور اگر ہم زندہ اور باوقار اقوام کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو قوم کے ھر فرد کو دیانتداری اور محنت کا نصب العین اپنانا ہوگا۔ وگرنہ ایسا ایٹم بم ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہچا سکے گا جس میں سے امریکی گندم اور اناج کے لئیے ملی بھیک کی بُو آتی ہو۔
خیر اندیش-
محترم! کئی متنازع باتوں میں سے صرف دو جملوں کے حوالے سے آپ سے وضاحت چاہوں گا۔ اس کے بعد ہی اپنا موقف پیش کر پاؤں گا۔
** مشرقی پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا اگر وہاںکے لوگ نہ چاہتے۔
** عراق پر امریکہ کبھی قبضہ برقرار نہ رکھ پاتا اگر شیعہ اس کا ساتھ نہ دیتے۔
ابوشامل صاحب
جاوید گوندل صاحب نے بہت ساری باتوں کی وضاحت کر دی ہے اور انہی کی نصیحت کو پلے باندھتے ہوئے ہم نے شیعہ کو صدام مخالف عناصر سے بدل دیا ہے۔ کہنے کا مطلب یہی تھا کہ اگر قوم اپنوں سے غداری نہ کرے تو دشمن سے شکست نہیںکھا سکتی۔
مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے بہت سی وجوہات ہو سکتی ہے جن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مگر بات وہی ہے اگر مقامی آبادی نہ چاہے تو بیرونی حملہ آور کبھی ملک پر قبضہ قائم نہیںرکھ سکتا۔
آپ کے موقف کا انتظار رہے گا۔
عالیجناب جاويد گوندل صاحب کی تحریر سے متفق ہوں
اگر یہ مصنف نہ ہوتا تو ہمیں یہ تحریر نہ ملتی!
آپ نے اس کے بعد والی تحریر کیوں ہٹا دی ؟
اس میں غالباً یہ وڈیو تھی
http://www.youtube.com/watch?v=A5bjN3Q6aA8
میں تو ایسے منظر 1983ء سے دیکھتا آیا ہوں ۔ یہ طریقہ ہمیں انگریزوں نے دیا اور ذہنی طور پر ہم اب تک فرنگیوں کے غلام ہیں ۔ یہی طریقہ امریکی بھی استعمال کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھول گئے کیا ؟ اور اس سے پہلے عراقی سائنسدان خاتون پروفیسر کے ساتھ ابو غرائب جیل میں جو کچھ کیا گیا وہ آپ جانتے ہیں ؟
اجمل صاحب
اس تحریر سے پہلے ہماری نظر جہانزیب اشرف صاحب کے بلاگ پر نہیںپڑی تھی۔ جب دیکھا کہ انہوں نے اس ویڈیو پر پہلے ہی اظہار خیال کر دیا ہے اور قارئین نے بھی تبصروں میں اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے تو پھر ہماری تحریر کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا تھا۔
جاوید صاحب اور ابو شامل کے ساتھ ہوں۔ آپکا یہ کہنا اور زور دینا کہ مقامی لوگ جب تک نہ چاہیں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس سے سوچ کی نا پختگی اور بہت سارے حقائق سے نا واقفیت کی بو آتی ہے۔ اخلاص رکھنا اچھی بات ہے مگر تاریخ کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے جاننے کی کوشش کرنا اور اسے صحیح طور پر دوسرے لوگوں تک پہنچانا اس سے کہیں زبردست اور مثبت کام ہے۔
کم از کم ان چیزوں کو متنازع نہ بنائیں جنپر لکھنے والے اور تحقیقداں بہت کچھ لکھ اور کہہ چکے ہیں۔
اگر آپ اپنی تاریخ کو صحیح طور سے نہیں جانیں گے اور حقائق سے آنکھیں چرائیں گے تو وہی غلطیاں بار بار ہونگیں جو پہلے بھی ہوئیں ہیں۔ یہ بات ہم سب کو اچحی طرح سمجح لینی چاہئیے کہ ذہین اور مخلص لوگوں کی کسی زمانے میں اور کسی دور میں بھی کمی نہیں رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم اس دور میں اپنی قوم سے محبت کے دعویدار کھڑے ہو گئے ہوں۔ لیکن اسکے باوجود لوگوں نے عظیم غلطیاں کیں اور اسکی سزا آنیوالی نسلوں نے اٹھائ۔
بہتر یہ ہے کہ آپ جس موضوع پر بھی لکھنا چاہ رہے ہوں اسپر تھوڑی سی ریسرچ ضرور کر لیا کریں۔ اس سے بات میں خاصہ وزن پیدا ہو جاتا ہے، آپکی عام معلومات بھی پہلے سے بڑھ جاتی ہیں اور یہ بہت ممکن ہو کہ جو آپ سمجھ رہے تھے اس سے الگ حقیقت آپکے علم میں آجائے۔ خود میرے ساتھ بھی بارہا ایسا ہوا ہے۔
عنیقہ صاحبہ کا مشورہ سر آنکھوں پر لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیںآئی کہ ہم نے تاریخ کیسے مسخ کی ہے۔ تنقید برائے تنقید کی بجائے اگر غلطی کی نشاندہی کر دیتیں تو شاید ہم بھی اپنی صفائی میںکچھ کہ سکتے۔ ہم نے تو سیدھی سی باتیں لکھی ہیں جن تاریخ سے تعلق ہے مگر یہ حقیقت سے زیادہ قریب ہیں۔
مثال کے طور پر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر اس دور کے مسلمان متحد ہو کر یزید کی مخالفت اور حضرت امام حسین کی حمایت کرتے تو وہ کبھی شہید نہ ہوتے۔ کیا یہ سچ نہیںہے کہ اگر مسلم لیگ ق صدر مشرف کیخلاف ڈٹ جاتی تو لال مسجد کا سانحہ پیش نہ آتا۔ اگر کالے کوٹ والے اسمبلی سے باہر رہ کر مشرف کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں تو مسلم لیگ ق تو سیاسی جماعت تھی۔
ایک ہمارا ملک ہے
جب جب عوام نے جمہوریت چنی ملک کا بیڑا غرق ہی ہوا ہے
اور مارشل لا نے ملک کا ستیا ناس کر رکھا ہے
ملک کا کریں کیا آخر؟
Leave A Reply