اگر انسان حساب کرنے لگے کہ اس کی زندگی بنانے میں کتنے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا تو ورق کے ورق سیاہ ہو جائیں گے اور وہ نام ختم نہیںہوں گے۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں ہم نے ان لوگوں کیلیے کیا کیا، تو سوائے دو چار عام سے کاموں کے ساری نوٹ بک خالی ہی نظر آتی ہے۔
ہمارے زمیندار سائنس کالج کے الجبرے کے استاد حافظ صادق صاحب تھے۔ انتہائی بے لوث اور مخلص جنہوں نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس کی نظر کر دی۔ وہ حافظ اس لیے نہیں تھے کہ انہوںنے قرآن حفظ کیا ہوا تھا یا موٹے موٹے شیشوں کے چشمے آنکھوں پر چڑھائے ہوتے تھے بلکہ ان کے شاگردوں نے ان کا نام حافظ اسلیے رکھا ہوا تھا کہ انہیں ایف ایس سی اور بی ایس سی کی حساب کی کتابیں ازبر یاد تھیں۔ ہم نے بھی ان سے دو سال پڑھا، مجال ہے ایک دن بھی انہوں نے کتاب کھول کر دیکھی ہو۔
ہمارے استادوں کی لسٹ بہت لمبی ہے۔ چلیںآج اس موقع پر ان کے نام گنواتے ہیںاور دیکھتے ہیں کتنے استاد بنتے ہیں۔
اسلامی تعلیم – بابا ابراہیم صاحب، صوفی صاحب، مولوی یوسف صاحب
پرائمری سکول – شمیم صاحب، محمد خان صاحب، تصور صاحب
اسلامیہ ہائی سکول لالہ موسٰی – رانجھا صاحب، عارف صاحب، نصیر صاحب، عبدالکریم صاحب، اعظم صاحب، نسیم صاحب، طالب صاحب، خادم صاحب، رفیع صاحب، عبدالرشید صاحب، رئیس جان بیگ صاحب، مختاقر صاحب
زمیندار سائنس کالج گجرات – حافظ صادق صاحب، نسیم صاحب، نثار صاحب، لطیف صاحب، نصیر صاحب، بہاری صاحب
انجنیئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلہ – طارق کیانی صاحب، نصیر صاحب، اختر صاحب، صغیر صاحب، سلیم اقبال علوی صاحب، انور صاحب، رفیع جاوید صاحب، حافظ یاسین صاحب، سعید صاحب، ایم ایس قاضی صاحب، حبیب اللہ جمال صاحب
سٹی یونیورسٹی نیویارک – باپت صاحب، راج صاحب، اردرالی صاحب،
اس کے بعد بہت سارے اداروں سے چھوٹے چھوٹے کورسز اور سرٹیفکیٹ پروگرام کیے جن کے اساتذہ کا شمار ہی نہیں ہے۔
6 users commented in " یومِ استاد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر ممکن ہو تو جن اساتذہ کے اسمائے گرامی لکھے ہیں ان کا چھوٹا سا تعارف بھی دے دیجیے۔
نظامی صاحب
ہم نے بھی سوچا کہ تعارف کرا دیں مگر لسٹ لمبی ہونے کی وجہ سے پوسٹ طویل ہو جاتی۔ کوشش کریں گے آئندہ ہر ایک کا تعارف الگ الگ کرا سکیں۔ فی الحال تو خراج تحسین کیلیے ان کے نام درج کر دیے۔
طارق کیانی صاحب، نصیر (ٹرکی) صاحب، رفیع جاوید صاحب، صغیر صاحب، حافظ یٰسین () صاحب سے تو ہم نے بھی اکتساب علم کیا۔ طارق کیانی اتنے پُرانے ہیں اس کا علم نہ تھا۔ صغیر صاحب بھی کافی نوعمر ہی دکھتے تھے 97 تک تو 🙂
جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے۔
فرمان باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ
بہت خوب
اچھی تحریر ہے
آج تو بس پیسہ ہی پیسہ ہے ہر طرف
استاد نے اسکول کالچ کے بجائے تعلیم کے لئے کالیچیٹ اور کوچنگ سینٹر کھول رکھے ہیں
جس نے حصول مکمل کر لیا اس نے فتح پا لی
اور فیس کا عالم کیا ہے یہ مت پوچھیئے
بس تعلیم اور درس گاہیں کمانے کا بہترین زریعہ ہیں جو کبھی بند نہیں ہتا
ہمارے استاد جناب حنیف صاحب تھے میٹرک میں
ان کا کہنا تھا جس کو میں نے کوچنگ یا ٹیوشن جاتے دیکھا اگلے دن سے اسکول نہ آنا
پھر میرا کیا کام اسکول میں آنے کا
جا کر ان سے ہی پڑھ لو
Leave A Reply