سانحہ مشرقی پاکستان،  بھٹو اور جنرل ضیاء کا دور

پرویز صاحب نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بارے میں وہی کچھ لکھا ہے جو تاریخ میں درج ہے۔ ان کا نقطہء نظر بھی وہی ہے جو دوسرے پاکستانیوں کا ہے یعنی مشرقی پاکستان کے توڑنے میں بھٹو اور یحیٰ [فوج کا نہیں] کا ہاتھ تھا۔ شکر ہے انہوں نے یہاں پر پہلی دفعہ یحیٰ کے اقتدار کو مٹھی بھر فوجی حکمرانوں کا ٹولہ کہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت  ذوالفقارعلی بھٹو اور مٹھی بھر فوجی حکمرانوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہو چکا تھا۔ حالانکہ پرویز صاحب کوچاہۓ تھا کہ وہ تحقیق کرتے اور اندر کی کوڑی لاتے جس سے پتہ چلتا کہ ان کی نظر میں مشرقی پاکستان کی علٰحدگی کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ پرویز صاحب مشرقی پاکستان کے سانحے سے جنرل ایوب کا ذکر گول ہی کرگۓ ہیں۔ حالانکہ مشرقی پاکستان کی علٰيحدگی کی بنیاد جنرل صدر ایوب اور اس کی فوج نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی۔

پرویز صاحب نے ایوب دور کا بلکل ذکر نہیں کیا۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ یہ کتاب جنرل ایوب کی کتاب کے مصنف کے بیٹے اور پوتی نے لکھی ہے۔ اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب ایوب دور کے بارے میں بھی بات کرتے تاکہ ان کا نقطہء نظر بھی سامنے آتا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی ساری خرابیاں پرویز صاحب نے اختصار کیساتھ گنوا ہی نہیں دیں بلکہ مبالغہ آرائی کیساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کی ہیں۔ بہتر ہوتا بھٹو کے اچھے کاموں کی تفصیل بیان کرکے اس کی تھوڑی سی تعریف بھی کردیتے۔ یہ وہی بھٹو تھا جس نےڈاکٹر قدیر خان کی طرح کے بہت سے سائینسدانوں کو اکٹھا کیا اور پاکستانی کے ایٹمی طاقت بننے کی بنیاد رکھی۔  یہ بات ٹھیک ہے کہ بھٹو نے صنعتیں قومیا کر ملک کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر سکولوں کالجوں کا ستیاناس کردیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لیبر اور سٹوڈنٹ یونینز بنا کر انہوں نے قوم کو جو سیاسی شعور دیا اس کی وجہ سے بہت سارے سیاسی لیڈر عام پبلک سے اوپر آۓ جو اب تک بھر پور سیاسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے لیاقت بلوچ، جاوید ہاشمی، شیخ رشید، جہانگیر بدر اب بھی اپنا ایک سیاسی مقام بناۓ ہوۓ ہیں۔ بھٹو نے واقعی اپنے دور کے آخر میں شراب پر پابندی لگا کر اور جمعہ کی چھٹی دے کر منافقت کی تھی مگر یہ منافقت قوم کو راس آگئی۔ اس کے الٹ پرویز صاحب کے دور میں بظاہر شراب پر پابندی ہے مگر شراب ملک کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ہی نہیں بلکہ امیروں کے ڈرائینگ روموں اور فوج کے بنگلوں میں عام پی جارہی ہے۔ بھٹو نے اگر اپنے مخالفین کو جیل میں ڈالا تو اب پرویز صاحب کے دور میں بھی جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی جیسے بہت سے لوگ پابندِ سلاسل ہیں۔ بھٹو نے ایف ایس ایف بنا کر اپنے مخالفین کو حراساں کیا تو پرویز صاحب کی ایجینسیوں کے لوگوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نام پر ہزاروں لوگوں کو گھروں سے اٹھا لیا اوران میں سے سینکڑوں کو 5000 ڈالر فی کس بیچ بھی دیا۔  بھٹو نے اگر صنعتیں قومیا کر قوم کے ساتھ زیادتی کی تو اسی طرح پرویز صاحب کے دور میںمنافع بخش صنعتوں کو پرائیویٹائز کرکے قوم کیساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ اس کاروبار میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنے ہاتھ قوم کی دولت سے رنگے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اگر تعلیمی اداروں کو قومیا کر تعلیم کا بیڑہ غرق کیا تو پرویز صاحب کے دور میں پرائیویٹ تعلمی اداروں کی فیسوں پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔

پرویز صاحب نے مشرقی پاکستان کے سانحے کو ان الفاظ میں ختم کیا ہے “پھر فوج کو یتھیار ڈالنے پڑے اور  بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ رنج دینے والا واقعہ تھا” مناسب ہوتا اگر پرویز صاحب اپنے تجربے کی بنا پر 1971 کی جنگ میں فوج کی شکست پر بھی کچھ روشنی ڈالتے اور بتاتے کہ اس کے بعد فوج نے اس سے کیا سبق سیکھا۔ مگر نہیں ہمیں اپنی ناکامیوں کو چند لائنوں میں بیان کرکے آگے بڑھنا ہے تاکہ ہم اپنی خودنمائی کیلۓ اپنی سوانح حیات کے صفحات محفوظ رکھ سکیں۔

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے پرویز صاحب نے بھٹو کی ساریاں برائیاں ایک ایک کرکے بیان کردیں ہیں اور یہ تک نہیں سوچا کہ ان میں سے چند برائیاں ان کے اپنے دور میں ابھی تک موجود ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھٹو نے صحافیوں تک کو نہ چھوڑا اور پرویز صاحب کے دور میں مانا کہ صحافت آزاد ہے مگر اب بھی صحافی حکومتی مظالم کا شکارہو رہے ہیں۔

پرویز صاحب نے 1974 میں سٹاف کالج کا کورس اعزاز کیساتھ پاس کیا مگر کونسا اعزاز حاصل کیا بھر بتانے سے پرہیز کیا ہے۔ اس کے بعد پرویز صاحب کو بریگیڈ میجر مقرر کیا گیا۔ یہ وہی بریگیڈ ہے جس کو بلوچستان ميں بغاوت کچلنے کیلۓ بھیجا گیا۔ اس کیساتھ پرویز صاحب ایک سردار سے ملاقات کا حال بتاتے ہیں۔ یہ واقعہ انہوں نے کیوں بیان کیا معلوم نہیں ہوسکا سواۓ اس کے کہ وہ سردار بعد میں ان کا دوست بن گیا۔ اگر سردار کانام یہاں لکھ دیتے تو شائد پتہ چل جاتا کہ پرویز صاحب کے ہرجائی پن کے وہ بھی شکار ہوۓ کہ نہیں۔

بھٹو کے آخری دور میں احتجاجی تحریک اور پھر فوج کی مداخلت کا ذکر پرویز صاحب نے کیا ہے مگر فوج کی مداخلت کا صحیح جواز پیش نہیں کیا بلکہ وہی لکھا ہے جو زبان زدِ عام ہے یعنی احتجاجی تحریک اور اپوزیشن کی آرمی کو بغاوت کی دعوت۔  یہاں بھی وہ اپنی راۓ کا اظہار کرسکتے تھے مگر انہوں نے ملک کی تاریخ کے اس اہم واقعے کوبھی اسی طرح آسانی سے لیا ہے جس طرح مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کو۔

پھر پرویز صاحب کو1978 میں لیفٹینٹ کرنل بنا کر مارشل لاء ہیڈ کورٹر میں تعینات کردیا گیا جہاں پر انہیں کچھ منفی اور مثبت تجربات ہوۓ مگر تجربات کی تفصیل نہیں بتائی۔ ہوسکتا ہے وہ تجربات قومی راز ہوں اور ان کو اس وقت افشاں کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔

اپنی روشن خیالی کو ہوا دینے کیلۓ پرویز صاحب نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں جب وہ سٹاف کالج میں انسٹرکٹر تھے تو جنرل ضیا کے پروگرام میں انہوں نے ناچ گانے کا بندوبست کیا مگر جب معلوم ہوا کہ جنرل ضیا ان کی طرح ناچ گانا پسند نہیں کرتے تو انہیں ناچ گانے والوں کو راستے سے ہی واپس بھیجنا پڑا۔ شکر ہے روشن خیالی کسی سے تو ڈری۔

کہتے ہیں ضیا دور کی کوڑوں کی سزا بہت خوفناک تھی اور ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرتےہیں کہ اس سزا کا نشانہ صرف غریب غرباء ہی بنے۔ بااثر لوگوں کو بچانے کے ڈھنگ نکال لۓ گۓ۔ پرویز صاحب نے اپنی نرم دلی کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے۔ انہوں نے اپنی کوشش سے کم از کم ایک جنرل کو اس سزا کے ترک کرنے پر اکسایا۔  

پھر پرویز صاحب کی ٹرانسفر ملٹری آپریشنز میں ہوگئی جہاں انہوں نے سیاچین کی جنگ میں شرکت کا ذکر کیا ہے۔ مگر تفصیل میں پھر نہیں گۓ۔ ہوسکتا ہے کہیں آگے اس جنگ پر ان کے نقطہء نظر سے آگہی ہو۔

پرویز صاحب اس کے بعد سٹاف کالج میں دوبارہ تعینات کردیۓ گۓ۔ پھر دوسال بعد انہیں بریگیڈیئر بنا کر کھاریاں میں تعینات کردیا گیا۔ یہاں پر پتہ نہیں کیوں وہ یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اب ان کی کار پر جھنڈا لگ گیا۔ یہ جھنڈا لگنا کس شان کی نشانی ہوتی ہے اور اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے اس کی تشنگی رہے گی۔

اس دوران بھارت کیساتھ کشیدگی بڑھی اور ان کے بریگیڈ کر سیالکوٹ بھیجا گیا جس سے بھارت کی مواصلات کو خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس سے بھارت خوفزدہ ہوگیا اور اس نے کوئی حرکت نہ کی۔ یہ بات تو بالکل پلّے نہیں پڑی۔ کہ فوج کی تعینانی سے ہی دشمن ڈر گیا۔ اب اگر یہ بتا دیا جاتا کہ دشمن کیوں ڈرا یعنی ہماری طاقت اس سے زیادہ تھی یا پھر ہم تعداد میں زیادہ تھے تو بات مزید واضح ہوجاتی۔

ضیا دور کے آخر میں وہ بتاتے ہیں کہ انہیں جنرل ضیا کا ملٹری سیکریٹری مقرر کیا گیا مگر ان کے باس نے یہ کہ کر ان کا نام واپس لے لیا کہ پرویز صاحب ایک ہونہار افسر  ہیں اور انہوں نے ابھی مزید ترقی کرنی ہے۔ حالانکہ جنرل ضیا نے خود ان کا نام تجویز کیا تھا ۔ اب سوچنے والی بات ہے کہ جنرل ضیا ایک فیصلہ کرے اور اس کا جونیئر اس کو بدلوا لے یہ کم از کم فوج میں تو ممکن نہیں ہے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ اس حکم کو بدلوانے کیلۓ پرویز صاحب کے کیریئر کا بہانہ بنانا۔اس کا مطلب ہے کہ بعد میں بریگیڈیئر نجیب کو قربانی کا بکرہ بنایا گیا۔ اب اگر بریگیڈیئر نجیب زندہ ہوتے تو بتاتے کہ کیا ان کے کیریئر کا کسی کو خیال نہیں آيا یا وہ ہونہار آفیسر نہیں تھے۔ اچھا ہوا جو بھی ہوا اس طرح پرویز صاحب طیارے کے حادثے سے بچ گۓ جس میں ملک کی فوجی کریم لقمہء اجل بن گئ۔

جنرل ضیا کے گیارہ سالہ دور پر بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا۔ پرویز صاحب افغانستان کی جنگ اور پھر روس کی شکست پر اپنی فوج کی تعریف کرسکتے تھے مگر یہاں پر ان کی خاموشی کچھ اچھی نہیں لگی۔ ہوسکتا ہے آگے چل کر جب طالبان کا ذکر آۓ تو پھر ان کے خیالات جاننے کا موقع ملے۔ یہاں تو جنرل ضیا کے دور کو صرف کوڑوں کی مار سے ہی یاد کیا گیا ہے حالانکہ یہ دور بھی ملک کی تایخ کا اہم ترین دور ہے اور اس نے ملک پر کافی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

جنرل ضیا کا مارشل لاء ملک کا طویل ترین مارشل لاء تھا۔ اگر پرویز صاحب اسی طرح ڈٹے رہے تو جنرل ضیا کا ریکارڈ ضرور توڑ دیں گے۔ جنرل ضیا نے جس طرح اسلام کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا اسی طرح اب پرویز صاحب دہشت گردی اور انتہا پسندی سے قوم کو ڈرا ڈرا کر اس کا خون خشک کررہے ہیں۔

جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی دی جس کی وجہ سے بھٹو کی موت سیاسی قتل مانی جاتی ہے۔ جنرل ضیا نے لیبر اور سٹوڈنٹ یونینوں پر پابندی لگا کر اپنا عرصہء حکومت تو طویل کر لیا مگر قوم کے شعور کی نشونما پر تالے لگا دیۓ۔ جس طرح پرویز صاحب نے بھٹو کے شراب پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی کو منافقانہ اقدامات قرار دیا ہے اسی طرح جنرل ضیا کے ہر رمضان ميں عمرے، حدود آرڈینینس، شلوار قمیض اور شیروانی کا استعمال، شاہ فیصل مسجد کی تعمیر، ٹی وی پر دوپٹے کا رواج، تلاوت اور نعت کا ہر تقریر سے پہلے سنوانا اور کام کے دوران نمازوں کا وقفہ بھی منافقانہ اقدامات تھے۔ کیونکہ جنرل ضیا نے اسلام کی بنیادی روح کو پسِ پشت ڈال دیا اور دوسرے مطلق العنان حکمرانوں کی طرح صرف دکھاوے کے کام کۓ۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح بھٹو کے منافقانہ اقدامات کا قوم کو فائدہ پنہنچا اسی طرح جنرل ضیا کے دکھاوے کے کاموں سے بھی قوم گیارہ سال روشن خیالی کی یلغار سے بچی رہی۔

جنرل ضیا اگر پکے اور سچے مسلمان ہوتے تو مسلمانوں کی بہبود کا خیال کرتے۔ مسلمانوں کی اگلی نسل کی آبیاری اس طرح کرتے کہ پندر بیس سالوں میں آنے والی نسل پاکستان کی قیادت اسطرح سنبھالتی کہ ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی۔ جنرل ضیا نام کے مسلمان تھےاسی لۓ انہوں نے وہی کچھ کیا جو ان کے اقتدار کی طوالت کیلۓ ضروری تھا یعنی افغانستان کی جنگ میں امریکہ کو استعمال کیا۔ اپنے لوگوں کو امریکی مفادات کی جنگ میں مروایا اور جب افغانستان کی جنگ میں کامیابی کا جشن منانے کا وقت آیا تو ان کو ان کے اللہ کے پاس بھیج دیا گیا۔

جنرل ضیا کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ خدا نے جنرل ضیا کو موت کے بعد حوروں کی بجاۓ نور جہاں عنائت فرما دی۔ اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اے خدا تو نے ایک منافق کو دنیا میں عیاشي کرائی اور یہاں بھی عیاشي کرا رہا ہے۔ خدا نے کہا کہ پاگلو میں جنرل ضیا کو عیاشی نہیں کرا رہا بلکہ نور جہاں کو عذاب دے  رہا ہوں۔

اگر پرویز صاحب اپنے دور کا سابقہ فوجی ادوار سے موازنہ کرتے تو قاری کو ان کے دور کی اچھایاں اور برائیاں جاننے کا موقع ملتا اور تاریخ دان کو تاریخ لکھنے میں آسانی ہوتی۔

ہماری نظر میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے ادوار میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔

۱۔ جنرل ضیا نے آٹھویں ترمیم کرکے سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لۓ۔ جنرل مشرف نے بھی ایم ایم اے کو دھوکہ دےکر آئین میں ترمیم کرکے مرکزی اختیارات حاصل کرلۓ۔

۲۔ جنرل ضیا نے  وزیرِ اعظم جونیجو کو اس طرح برطرف کیا کہ “جونیجو بنانا” ایک محاورہ بن گیا۔ جنرل مشرف نے ظفراللہ جمالی کو ہٹایا۔

۳۔ دونوں جنرلوں نے افغانستان کی صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور اپنے اقتدار کو پکا کیا۔

۴۔ جنرل ضیا کی طرح جنرل مشرف نے بھی سرکاری مسلم لیگ بنوائی

  ۵۔   جنرل ضیا نے اگرنوے روز میں الیکشن کرانے کا وعدہ توڑا تو جنرل مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ پورا نہ کیا۔

۶۔ جنرل ضیا نے بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹایا تو جنرل مشرف نے بینظیر اور نوازشریف کو ملک سے باہر رکھا

۷۔ جنرل ضیا نے کوڑوں سے ڈرایا تو جنرل مشرف نے نیب کی طاقت استعمال کی۔

۸۔ جنرل ضیا نے مجلسِ شوریٰ بنائی تو جنرل مشرف نے بلدیاتی نظام دیا۔