ہم نے کل انڈر 19 ورلڈ کپ کرکٹ کا فائنل انڑنیٹ پر اسلیے دیکھا کہ پاکستانی ٹیم فائنل کھیل رہی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ورلڈ کپ فائنل تھا جس کے تماشائی کھلاڑیوں کے اہل خانہ تھے۔ چند پاکستانی خاندان ٹیم کیلیے نعرے لگا رہے تھے اس کے علاوہ سوائے ٹی وی کمنٹیڑوں کے کسی کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ پاکستانی کھلاڑی جیتا ہوا میچ اپنی سستی کی وجہ سے ہار گئے۔ اننگز کے درمیان میں وہ سپنرز کیخلاف ٹپ ٹپ کر کے وقت ضائع کرتے رہے۔ اس فائنل سے ایک بار پھر یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ ہم پاکستانی ترقی یافتہ اقوام کے سامنے بالکل بچے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی باولنگ اچھی کی مگر آسٹریلین کی باولنگ کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔

اس میچ سے تو یہی لگتا تھا جیسے ہمارے کھلاڑی یا تو جان بوجھ کر یہ میچ ہارے ہیں یا وہ آسٹریلین کے سامنے دبک گئے ہیں یا انہوں نے رات جاگ کر گزاری تھی۔ ایک تو ہم پاکستانی کھیل تو کھیلتے ہیں مگر کھیل کیلیے جس توانائی جسمانی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری خوراک کی کمی اور جنسی شہوت کی نظر ہو جاتی ہے۔ دونوں ٹیموں میں فرق اگر تھا تو قد کاٹھ کا۔ ہمارے پاکستانی چوہے چوہے لگ رہے تھے اور آسٹریلین کنگرو۔ اگر ہم نے کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں مقام بنانا ہے تو پھر ہمیں خوراک کی طرف دھیان دینا ہو گا اور اپنے لنگوٹ کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اگر جان ہو گی تو کھیل ہو گا اگر جسم میں جان ہی نہیں تو پھر ہڈیوں کا دھانچہ بھلا کیا جوہر دکھائے گا۔

اب بھی وقت ہے کرکٹ اور ہاکی کی سرپرستی حکومت کرے اور ان کھیلوں کے کھلاڑیوں کی ایسے پرورش کرے جیسے پرانے زمانے کے راجے مہاراجے پہلوانوں کی دودھ، گھی اور بادام کھلا کر پرورش کیا کرتے تھے۔ عام سی بات ہے کسی نے مرغا بھی لڑائی کیلیے میدان میں اتارنا ہو تو وہ اسے مغز بادام کھلاتا ہے اور مرغیوں سے دور رکھتا ہے۔

ہم تبھی ورلڈ چیمپین بن سکیں گے جب مہارت کیساتھ ساتھ اپنی صحت پر بھی توجہ دیں گے اور بری عادتوں سے بچے رہیں گے۔ اگر ہم اب بھی باز نہ آئے تو پھر ہر دفعہ منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے دور رہا کریں گے۔ لیکن موجودہ حالات یہی گواہی دیتے ہیں کہ نہ ہماری حکومت کو کھیلوں کی ضرورت ہے اور نہ سرکاری محکموں کو۔ ایک وقت تھا کھلاڑی ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے اب یہ وقت ہے کہ ہیرو صرف گالیاں کھانے کیلیے گئے ہیں۔ ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔