ہفتہ کے دن خبروں میں بتایا گیا کہ ایک وزیر مملکت ایک خاتون کو بے ہوشی کی حالت میں پمز ہسپتال لاۓ اور اسے وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ پاکستانی کینیڈین چالیس سالہ کفیلہ قریشی تھی جس کا بعد میں پتہ چلا کہ وہ وزیر مملکت انجینئر شاہد جمیل قریشی کے ساتھ رہتی تھی۔
اب دونوں طرف کے بیانات سے کچھ اسطرح کی کہانی بنتی ہے۔ کفیلہ قریشی کینیڈا میں اپنے شوہر کیساتھ رہائش پزیر تھی اور وہ اچانک اپنے شوہر کیساتھ ناچاکی کے بعد پاکستان منتقل ہوگئ۔ بقول وزیر مملکت جمیل قریشی یہ خاتون اپنے شوہر کی پانچ لاکھ ڈالر کی مقروض تھی اور ان کا شوہر قرض کا مطالبہ کررہا تھا۔ وزیر صاحب ان خاتون کی حوصلہ جوئی کیلیے اپنا پارلیمنٹ لاجز کا اپارٹمنت چھوڑ کر اس کیساتھ منتقل ہوگئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر یہ بات جانتے تھے کہ خاتون اپنے شوہر کیساتھ جھگڑے اور قرض کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار تھی۔ دوسری طرف کفیلہ قریشي کے شوہر میاں سلمان قیصر نے کینیڈین کونسلیٹ میں اپنی بیوي کے حبس بیجا کی درخواست دی ہوئی تھی اور وہ اپنی بیوی کی بازیابی کیلیے انٹر پول سے مدد مانگ رہا تھا۔
آج یہ معلوم ہوا ہے کہ مرحومہ کفیلہ قریشی کے بھائی نے وزیر مملکت انجینئر شاہد جمیل قریشی کیخلاف حبس بیجا کا مقدمہ درج کرا دیا ہے اور کینیڈین ایمبیسی بھی قتل کی تفتیش کی نگرانی کررہی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ مقتولہ کے وارثوں نے وزیر مملکت کیخلاف قتل کی بجائے حبس بیجا کا مقدمہ درج کرایا ہے۔
اس کہانی میں کچھ سوال ہیں جو وزیر مملکت کے کردار کو مشکوک بناتے ہیں۔ مثلا وزیرمملکت ایک خاتون کیساتھ بناں شادی کئے کیوں رہ رہے تھے؟ وہ خاتون کو پمز میں تنہا چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ ڈی ہائیڈریشن سے موت ایک دن میں نہیں ہوسکتی بلکہ دوچار دن لگ جاتے ہیں۔ اگر خاتون کو ڈی ہائیڈریشن تھی تو پھر اس کا علاج کیوں نہیں کرایا گیا؟ اگر خاتون مقروض تھی تو پھر اس کے رہن سہن کا خرچ کون برداشت کر رہا تھا؟ وزیر مملکت کی اس خاتون کیساتھ دوستی کس طرح ہوئی؟ چند ماہ سے وزیر مملکت اس خاتون کیساتھ کیوں رہ رہے تھے؟ خاتون کے شوہر نے انٹرپول میں وزیر مملکت کیخلاف حبس بیجا کی شکائت درج کیوں کرائی؟
ان سوالوں کے جوابات تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور پولیس کی تفتیش ہی ڈھونڈے گی اور وہ بھی تبھی جب حکومتی دباؤ آڑے نہ آیا اور کینیڈین ایمبیسی نے انہیں ڈنڈا دیے رکھا۔ ظاہری حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ خاتون کی موت وزیرمملکت کے کسی فعل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب وہ کونسا فعل ہے یہ پولیس کی آزادانہ تفتیش کے سوا کوئی نہیں جان پائے گا۔
بارہ جون کی خبروں سے مزید پتہ چلا ہے کہ جب کفیلہ صدیقی کو ہسپتال لایا گیا تو وہ پہلے ہی فوت ہوچکی تھی اور اس کے پاس سے شراب کی بو آرہی تھی۔ بقول اس کے رومیٹ وزیر مملکت وہ اسے تین سال پہلے ٹورانٹو میں ملے تھے اور پھر اس کے بعد ان کی دوستی ہوگئ اور کفیلہ صدیقی نے پاکستان آکر وزیر مملکت کیساتھ ملکر ایک کمپنی کھول لی جسے وزیر موصوف کی سفارش پر مواصلات کے کافی سارے کنٹریکٹ ملے۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ کفیلہ صدیقی لالچ اور عشق کے چکر میں وزیر موصوف کی باتوں میں آکر اپنے شوہر کی بہت ساری رقم لے کر پاکستان آگئی۔ جب عشق کا بھوت اترا ہوگا تو پھر عاشق معشوق میں ان بن شروع ہوگئی ہوگی۔ اسی ان بن کے نتیجے میں یا تو معشوق نے عاشقہ کو قتل کردیا یا عاشقہ نے دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔
جس شک کا ہم نے پہلے اظہار کیا تھا خبریں اس کی تصدیق کررہی ہیں یعنی وزیر موصوف تفتیش پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں اور انہوں نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بھی تبدیلی کیلیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
اگر یہی قتل کسی غریب کے گھر ہوا ہوتا تو قاتل اپنے اہل خانہ سمیت حوالات کی ہوا کھا رہا ہوتا۔ ملاحظہ فرمایے پولیس کی پھرتی، اصل ملزم سے تفتیش کی بجائے اس کے پی ایس او اور خانسامے کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزم چونکہ وزیر مملکت ہے اسلیے اسے ابھی گرفتار تک نہیں کیا گیا بلکہ ملزم نے اپنی طاقت دکھانے کیلیے اپنے باس یعنی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرلی ہے اور اس کے باس نے اس سے استعفیٰ لینے کی بجائے اسے ڈٹ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ واہ رہے طاقت تیری شان، جس پر تو نہیں ہوئی پشیمان
تازہ اطلاع یہ ہے کہ وزیر اعظم نے جمیل قریشی کو اپنے چیمبر میں بلا کر استعفیٰ لے لیا ہے۔
تیرہ جون کی خبروں کیمطابق سابق وزیر مملکت نے بتایا کہ وہ کفیلہ قریشی کیساتھ بہن بھائی کی طرح رہ رہے تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہوں نے اپنی بہن کا خیال کیوں نہیں رکھا اور وہ اسے ہسپتال مردہ چھوڑ کر چلے کیوں گئے۔ انہوں نے اپنی بہن کو شراب پینے سے منع کیوں نہ کیا۔ ہمارے خیال میں قریشی صاحب نے بہن بھائی کا بہانہ صرف بدنامی سے بچنے کیلیے گھڑا ہے اور اس طرح ایک پاک رشتے کی تذلیل کی ہے۔
جیو نے یہ بھی بتایا ہے کہ پہلے تو پولیس کو گھر میں گھسنے نہیں دیا گیا اور جب کورٹ کے آرڈر آئے تو پولیس نے گھر کی تلاشی لی۔ اس دوران کفیلہ کی موت کے تمام شواہد مٹا دیے گۓ اور جب نامہ نگاروں کو گھر کے معائنے کیلیے بلایا گیا تو گھر کی مکمل صفائی کی جا چکی تھی اور جس کمرے میں کفیلہ کی موت ہوئی وہ دوبارہ سے سیٹ کردیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کفیلہ کی موت طبعی ہو یا اس نے خود کشی کی ہو مگر اس کی موت کے شواہد مٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔
یہ بھی سنا ہے کہ جب وزیر اعظم نے سابق وزیر مملکت کو فون کیا تو وہ اسلام آباد سے لاہور جارہے تھے۔ وزیر اعظم نے انہیں واپس بلایا، ان سے استعفیٰ لیا اور پولیس سے مکمل تعاون کی ہدایت کی۔
امید یہی کی جارہی ہے کہ جس طرح کینیڈین حکومت اپنے شہری کی موت کا سبب چاننے کیلیے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ چکی ہے، سابق وزیر مملکت کی جان آسانی سے نہیں چھوٹے گی۔
12 users commented in " کفیلہ صدیقی کے قتل کا سراغ لگائیے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام
تازہ ترین نہیں لکھا۔ ابھی تین گھنٹہ قبل خبر تھی کہ وزیر سے وزیراعظم نے استعفی مانگ لیا ہے۔
کفيلہ صديقی کی عجيب وغريب حالات ميں ہُوئ وفات پر ابھی کُچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ليکن اب تک جو کُچھ علم ميں آيا ہے وہ اس قدر ناقابل فہم سا ہے کہ وزير صاحب کے دلائل بودے اور پُھسپُھسے سے محسُوس ہو رہے ہيں اُس پر کينيڈين نيشنل ہونے کی وجہ سے اب شاہد صاحب کی وزارت تو پڑ گئ خطرے ميں اور جان توخير سے خطرے کے نشان کو بھي عبُور کر رہي ہے ايسے ميں مُجھے حيرانگي تو صرف اس بات پر ہو رہي ہے کہ اتني دُور جا کر ہاتھ مارنے کي کيا ضرُورت تھي وزير با تدبير کو جب کہ کفيلہ کے مُتعلق يہ بھي اُن کے علم ميں تھاکہ ڈالروں کی صُورت ميں کوئ فائدہ بھی ملنے والا نہيں بھلا ہمارے وُزراۓ کرام اور کہيں سے کُچھ ملنے کی اُميد نا ہو پھر بھی وقت بلکہ اوقات ضائع کر ديں حيرانگی کی بات ہے اور دماغ انکاری بھی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ اگر دی جاۓ گی تو ہی اصل حالات کا علم ہو سکتا ہے ورنہ اور بہت سے کيسز کی طرح يہ کيس بھی فائلوں ميں دبا رہے گا يا دبا ديا جاۓ گا کفيلہ صديقی تو دبا دی گئ کون کہتا ہے کہ زمانہ ء جاہليّت جا چُکا ہے اور اب لڑکيوں کو پيدا ہوتے ہی دفنانے کی روايت ختم ہو گئ ہے جی ختم ہو گئ ہے بس اب ذرا بڑا کرکے دفنانے کا رواج ہوگيا ہے سو کبھی کاررو کاری وني، قُرآن سے شادی ،دولت جائيداد کی خاطر شادی يا شادی ہونے کے بعد کم جہيز کی ڈسی ہُوئ ،چھوڑيں کيا کُچھ گنوانا ہوگا اور کبھی کسی بھی اور مطلُوب طريقے کو اختيار کيا جاتا ہے شايد وقت کی ضرُورت ہوگی کيا کہہ سکتے ہيں سواۓ دُکھی ہونے کے؟يا دُعاۓ خير کرنے کے
دُعاگو
شاہدہ اکرم
شاہدہ اکرام! اسلام علیکم۔
بہن جی آپ یہاں کیسے؟ ۔۔ آپکو یہاں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ہے ۔ ویسےآپس کی بات ہے میں بھی نیٹ پہ مٹر گشت کرتے ادھر آنکلا ہوں۔۔اور آپکا پُر مغز تبصرہ پڑھنے کو مل گیا اور آپکی یہ رائے کہ۔۔ وزير با تدبير کو جب کہ کفيلہ کے مُتعلق يہ بھي اُن کے علم ميں تھاکہ ڈالروں کی صُورت ميں کوئ فائدہ بھی ملنے والا نہيں۔۔۔۔ سسٹر آپ نہیں سمجھتیں ۔۔۔ہماری روشن خیال حکومتی اشرافیہ کو حرام کچھ اس طرع سے لگ چکا ہے کہ ان سے کسی بھی رذیل ترین حرکت کی اُمید کی جاسکتی ہے اور اس ۔۔ نورا مافیا ۔۔ کا یہ عالم ہے کہ یہ نا تو خدا سے ڈرتے ہیں اور نا مقافاتٍ عمل سے ۔۔ اور مخلوقٍ خدا کو تو ی ہ۔۔۔ روشن خیال۔۔ اپنے جوتے کی نوک سمجھتے ہیں بعین اسیطرع جیسے موصوف وزیر مملکت کفیلہ صدیقی کو سمجھتے رہے ہیں ۔۔۔اور تین سالوں پہ محیط یہ ڈرامہ کہیں اور نہیں اسلامیہ جمہوریہ کے کیپٹل اسلام آباد متواتر پلے ہوا اور مرکزی کردار کوئی اور نہیں مملکتٍ خداداد کے وزیرٍ مملکت تھے ۔۔ اور ڈھٹائی کی حد دیکھیں وزیرٍ موصوف نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر ڈالی کہ وہ بیچارے تو کفیلہ صدیقی کے مکان میں کفیلہ صدیقی کے پاس ہفتے عشرے میں صرف تین یا چار روز سے زیادہ نہیں رہتے تھے ۔۔ واہ سبحان اللہ کیا بات ہے ۔۔ پاکستان جیسی اسلامی مملکت کا وزیرٍ مملکت ایک شادی شدہ نامحرم خاتون کے ساتھ مملکت کے کیپیٹل میں باقاعدہ زندگی بسرکر رہا ہے اور نا وزیر ٍ موصوف نے شرم محسوس کی اور نا ہی ہمارے ملک کی تقدیر پہ قابض ۔۔۔مشرف بہ روشن خیال۔۔ کرتا دھرتاؤں نے وزیرٍ موصوف سے جواب طلبی کی ضرورت محسوس کی یہ سی آئی اے پہ بنی سائینس فکشن فلم تو نہیں کہ ہماری ایجنسیاں وزیرٍ موصوف کے کرتُوت روزٍ اؤل سے نا جانتی ہوں؟ کہ شنیدن ہے کہ وزیرٍ اعظم نے وزیر موصوف سے استعفٰے طلب کر لیا ہے ، قربان جاؤں وزیرٍ اعظم شوکت عزیز کی سادگی کے ۔ کیا واقعی وزیرٍ اعظم ، مشرف اور جرنیلوں کو وزیرٍ موصوف کی دادٍ عیش کے بارے میں کچھ علم نہیں؟‘یاپھر مشرف بہ روشن خیال طبقے کے نزدیک اخلاقیات کا اطلاق صرف چیف جسٹس افتخار چوہدری ، انکے وکلاء ، میڈیا اور پاکستان کے مظلوم عوام پہ ہی ہوتا ہے۔؟
فقط والسلام
جاوید گوندل
بآرسیلونا۔ اسپین
نہ جانے اب کون سا وزیر کس کس کی کفالت کر رہا ہے –
جس کفیلہ کے پاس کینیڈین پاسپورٹ نہیں ہے اس کا کیا ہو گا ؟
کیا کہے کوئی ۔ ہمارے ملک میں آج تک حقیقت کو عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا ۔
Such ministers are like rotten eggs and they should be throne out of the country because they are earning bad name for Pakistan
آج کی خبر یہ ہے کہ کفیلہ صدیقی کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ان کی موت سر پر چوٹ لگے سے ہوئی۔ سر کی چوٹ موت واقع ہونے سے پہلے کی ہے جس سے ان کی سر کی کھوپڑی چٹخ گئ۔
Main nain tv par kafeela aour shaid kee vido diakhee Geo par wo dono apiss main bhout free say daih raha rahay thay
ایک سال بعد کفیلھ صدیقی کے مقدمے کے ملزم سابق وفاقی وزیرمملکت کو جج نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے اور انہیںفوری طور پر جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔
پتہ نہیں جج نے کس طرح ملزم کو شک کا فائدہ دیا اور کس طرح مقدمے کو ایک ماہ میںختم بھی کردیا۔ لگتا ہے یا تو کفیلہ کے رشتہ دار بک گئے ہیںیا پھر ملزم نے پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم سے ڈیل کرلی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس سازش پر کینیڈین ایمبیسی بھی خاموش ہے۔
پوری خبر اس لنک پر پڑھیے
http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100436178&Issue=NP_LHE&Date=20080701
قانونِ فظرت ہے- وہ معاشرے جلد تباہ ہوجاتے ہیں جہاں امیر اور غریب ، حاکم اور محکوم ، ظالم اور مظلوم ، طاقتور اور کمزور کے لئیے انصاف کے ترازو ۔ انصاف کے پیمانے اور قانون کی تشریح الگ الگ ہو ۔ کفر سے ریاست قائم رہ سکتی ہے ۔ظلم سے نہیں ۔ہم جنگلی معاشرے کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور منافقت کا رقص ہے ہر سوُ جاری و ساری ہے –
آپ کے دیئے گیے لنک کی خبر کے مطابق سابق وزیر کو ُ ُشک کا فائدہ،، کا فائدہ دے کر چھوڑا گیا ہے ۔۔ اگر وہ ُ ُباعزت،، بھی بری کر دیتے تو کسی نے کیا کرلینا تھا ۔؟ ویسے یہ تازہ تازہ تیار کی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ نہائیت ُ ُمنصف مزاج،، نظر آتی ہے
Leave A Reply