عمر اور اسامہ – حصہ اول

کتاب کا باب اکیس ملا عمر اور اسامہ کے نام ہے جس میں پرویز صاحب نے ان دونوں کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا ہے اور ان کیساتھ مزاکرات کا حال بیان کیا ہے۔

آج مُلّا عمر اور اسامہ بن لادن دنیا میں دو بدنام ترین نام ہیں۔ دنیا کیلۓ وہ دہشت گرد ہیں مگر انتہا پسندوں کے وہ ہیرو ہیں۔ تقریباً سب کیلۓ وہ ایک مسٹری ہیں۔ دنیا ملا عمر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی مگر پرویز صاحب کی نظر میں ملا عمر اب بھی بچ جانے والے طالبان کا لیڈر ہے۔ پانچ سال پہلے تک دنیا اسامہ بن لادن کو جانتی تھی مگر بعد میں وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ پرویز صاحب دونوں آدمیوں کے بارے میں  کچھ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے اور کچھ واقعات کی تصیح کریں گے۔

یہ مشہور ہے کہ شارٹ کٹ سے حاصل کردہ فوائد لمبے عرصے کیلۓ دردِ سر بن جاتےہیں۔ یہی کچھ روس کیخلاف جہاد کرنے والوں کی حمائت کرنے والوں کیساتھ ہوا جن میں امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب بھی شامل تھے۔ ہم نے مجاہدین کو ہتھیار دیۓ اور روس کیخلاف لڑایا اور جب روس شکست کھا گیا تو ہم نے یہ نہ سوچا کہ یہ جہادی بعد میں ہمارے لۓ وبالِ جان بن جائیں گے۔ امریکہ نے بھی یہ نہ سوچا کہ پڑھا لکھا اور مالدار اسامہ بن لادن ایک دن اس کیخلاف کھڑا ہوجاۓ گا۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر کی طرف توجہ نہ دی اور افغانیوں کو آپس میں لرنے کیلۓ چھوڑ دیا۔ امریکہ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کا کلچر پروان چڑھے گا اور پاکستان کو پریسلر ترمیم میں باندھ کر بےبس کردیا گیا۔

پرویز صاحب کا یقین ہے کہ اگر آپ لوگوں کو مزہب کے نام پر لڑائی کیلۓ تیار کرتے ہیں تو ہوسکتا ہے وہ لوگ آپ کو اپنے مقصد کیلۓ استعمال کررہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ملا عمر نے افغانستان میں حکومت پر کنٹرول حاصل کیا اور اسامہ نے امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کی مدد سے القائدہ تنظیم بنا لی۔ ان حالات ميں یہ بتانا ناممکن ہے کہ کس نے کس کو استعمال کیا۔

طالبان مدرسوں کے طلبا تھے مگر اب طالبان کا لیبل تبدیل ہو چکا ہے اور وہ ایک انتہاپسند تنظیم ہیں۔ ہم نے طالبان کی اسلۓ امداد کی تاکہ ہماری سرحد شمالی اتحاد والوں سے محفوظ رہے جنہیں ایران، روس اور بھارت امداد فراہم کررہے تھے۔ ہماری نیت خراب نہیں تھی اور نہ ہی ہمیں معلوم تھا کہ ایک دن ہماری مدد سے حکمران بننے والے ہماری بات ماننے سے انکار کردیں گے۔

ملا عمر کندھار کے گاؤں مودا ميں پیدا ہوا۔ کہتے ہیں اس کی پیدائش 1959 میں ہوئی۔ اس کی چار بیویاں اور چار بچے ہیں۔

 [یہاں پر بیویوں کا ذکر اس کو کٹڑ مزہبی دکھانے کیلۓ ضروری تھا۔ ملا عمر کا نقشہ کھینچتے ہوۓ اس کی ہر اس برائی کو اچھالا گیا ہے جس سے ثابت ہو کہ وہ ایک مزہبی جنونی شخص تھا اور اس کی کسی خوبی کو بیان نہیں کیا گیا۔ ایک اچھا لکھاری اگر اپنے دشمن کے بارے میں بھی لکھتا ہے تو اس کی دوچار خوبیاں ضرور بیان کردیتا ہے مگر اس کتاب میں طالبان کی کسی خوبی کا ذکر تک نہیں ملتا]۔

ملا عمر کی ایک آنکھ روسیوں کے خلاف لڑتے ہوۓ ضائع ہوئی اور ملا عمر کو ہیرو ثابت کرنے کیلۓ یہ مشہور ہوا  کہ ملا عمر نے اپنی آنکھ کو زخمی ہونے کے بعد چاقو کے زور سے نکال کر سی دیا لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ اس کی آنکھ کا ہسپتال میں آپریشن ہوا۔

روسی جب افغانستان 1989 میں خالی کرگۓ تو قبائلی سرداروں نے آپس ميں لڑنا شروع کردیا۔ ایک دن کندھار سے باہرچیک پوسٹ پر محافظوں نے دو لڑکوں کیساتھ زیادتی کی اور انہیں قتل کردیا۔ ملا عمر اپنے مدرسے کےچند شاگردوں کیساتھ چیک پوسٹ پر گیا اور اس نے محافظوں کو سزا دی۔ اس کے بعد طالبان ایک محاظ کے طور پر اٹھے اور سارے افغانستان میں چھا گۓ۔ پاکستان سے بھی صوبہ سرحد، بلوچستان اور کراچی شہر کے مدرسوں سے لوگوں نے وہاں جاکر طالبان کی مدد کی۔

ملا عمر کواکتوبر1994ميں امیر چن لیا گیا۔ 1996 میں 1500 ارکان پر مجلسِ شوریٰ بنائی گئ اور ملا عمر کو امیر المومنین بنا دیا گیا۔ اس وقت تک طالبان افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ کرچکے تھے۔

طالبان کی آمد افغانستان کی لاقانونیت اور سابقہ کمانڈروں، جنگجوؤں اور بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کا ردِ عمل تھا۔ بعد میں سیاسی فائدے کیلۓ بینظیر حکومت نے طالبان کی حمائت کردی۔ بینظیر کا وزیرِ داخلہ ریٹائرڈ میجر جنرل نصیر اللہ بابر انہیں اپنی اولاد کہا کرتا تھا جو بعد میں نافرمان نکلے۔ حقیقت یہ ہے کہ شروع ميں طالبان نے پاکستان سے نہ تو مدد مانگی اور نہ ہی مدد لي۔

[یہاں پر بینظیر کا نام لیکر خواہ مخواہ پی پی پی کو بدنام کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے طالبان کی حمائت کی اور تب تک کی جب تک اوپر سے احکامات نہیں آگۓ]۔

پرویز صاحب کو یقین ہے کہ امریکہ نے بھی پاکستان کی طرح طالبان کو شروع میں رد نہیں کیا اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ طالبان افغانستان میںمستقل امن لائیں گے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں اور ان کے لوگوں نے بھی طالبان کی ہرطرح سے امداد کی۔ اسلۓ افغانستان میں جنگجوؤں کے درمیان صلح نہ ہونے کی وجہ سے یورپ اور خصوصاً امریکہ نے طالبان کو تیسری قوت کے طور پر خوش آمدید کہا۔ جب بعد میں امریکہ طالبان سے مایوس ہوا تو اسکیلۓ طالبان کو چھوڑنا بہت آسان ہو گيا۔

طالبان کی اکثریت پختون تھی اور یہ پختون پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی آباد تھے۔ دوسری طرف شمالی اتحاد والے تاجک، ازبک اور ہزارہ قبائل پر مشتمل تھے جنہیں روس، ایران اور ہندوستان کی آشيرباد حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے شمالی اتحاد کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ اس سے علاقے میں انتشار پھیل سکتا تھا۔

پاکستان نے ملا عمر کو پہلے پاکستان کے دورے کی دعوت دی اور پھر اسے عمرے پر بھیجنے کی پیشکش کی مگر اس نے دونوں دفعہ انکار کردیا۔ وہ پاکستانی کمانڈروں سے تو ملتا رہا لیکن اس نے اپنے کمانڈروں سے ملنے نہیں دیا۔ طالبان کیساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے بلکہ خراب ہی تھے۔

[اس سچائی میں گڑبڑ ہے کہ شروع سے ہی پاکستان کے تعلقات طالبان کیساتھ خراب رہے۔ اگر یہ وجہ تھی تو پھر پاکستان نے طالبان کی مدد کیوں کی؟ کیا صرف شائد شمالی اتحاد سے بچاؤ کیلۓ۔ یہ وجہ یہاں جچی نہیں۔ ہوسکتا ہے پرویز صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ طالبان شروع سے ہی خراب تھے]۔

آگے پرویز صاحب طالبان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ پاکستانی فٹ بال ٹيم کے سر منڈوانے کی بات کرتے ہیں اور وجہ یہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی ٹيم کچھے پہن کر کھیلی تھی۔

[ہمارے علم کیمطابق فٹ بال ٹیم کے سر اسلۓ نہیں منڈواۓ گۓ کہ انہوں نے کھیل کے میدان میں کچھے پہنے تھے۔ بلکہ وہ کچھوں میں شہر میں پھرتے ہوۓ پاۓ گۓ تھے۔ ليکن اس کے باوجود انہيں قانون سے لاعلمي کي وجہ سے چھوڑ دينا چاہۓ تھا]۔

طالبان نے عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی اور لڑکیوں کو سکول بھیجنے سے بھی منع کردیا۔

[طالبان نے عورتوں پا پابندی لگا کر اور لڑکیوں کو سکول نہ جانے دے کر واقعی ہی زیادتی کی۔ دراصل اسلام عورتوں کر پردے کا تو حکم دیتا ہے مگر انہیں باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔ طالبان کا یہ عمل اسلامی نہیں بلکہ قبائلی روایات کی عکاسی کرتا ہے]۔

پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ طالبان  زانیوں کو سزا دینے اور اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کی وجہ سے بدنام ہوچکے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ایرانی قیدیوں کو  شپنگ کنٹینرز میں بند کردیا تاکہ وہ بھوک اور دم گھٹنے سے مر جائیں اور آخر کار انہیں کلاشنکوفوں سے کنٹینٹنر کی دیواروں میں سے گولیاں مار کر ختم کردیا۔

[پرویز صاحب نے زانیوں کو سزا دینے کی طالبان کی عادت کو بھی ہرائی جانا ہےاور اپنے دشمنوں کر مارنا بھی غلط قرار دیا ہے۔ کیا زانی کو سزا دینا برائی ہے؟ پرویز صاحب نے خود اپنی حکومت کے کتنے ہی مخالفین کو اس طرح غائب کرنے کی عادت اپنا رکھی ہے کہ کئی کئی سال ان لوگوں کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ لگتا ہے بعد میں اتحادیوں نے بھی طالبان کیخلاف جنگ کے دوران انہی کی تقلید کرتے ہوۓ انہیں ٹرالوں میں بند کیا اور بناں کلاشنکوف کی فائرنگ کے اندر ہی دم گھٹ کر مار دیا]۔

پاکستانی حکومت کی پہلی سرکاری ملاقات ملا عمر کیساتھ اکتوبر 1994 میں سپن بولدک میں ہوئی۔ جس میں پاکستانی حکومت نے امدادی کاروائیوں کیلۓ اپنے قافلے کی نگرانی مانگی تھی مگر ملا عمر نے علاقے میں جاری لڑائی کی وجہ سے پہلے تو انکار کردیا مگر بعد میں حامی بھر لی۔ بعد میں وہ قافلہ اغوا ہو مگر طالبان نے اسے اغوا نہیں کیا۔

اسامہ بن لادن کے مئ 1996 میں جلال آباد آمد کے بعد وہ عرب جو روسی جنگ کے بعد واپس چلے گۓ تھے واپس افغانستان لوٹنے لگے تاکہ اسامہ کے گروپ میں شامل ہوسکیں۔ انہوں نے طالبان کی حکومت کو بھی سپورٹ کیا۔ جلد ہی ازبک، بنگلہ دیشی، چیچن، چائنیز، اوئگرز اور دوسرے مسلمان جنوبی ہندوستان، یورپ، امریکہ اور حتیٰ کہ آسسٹریلیا سے طالبان کی مدد کیلۓ افغانستان آنا شروع ہوگۓ۔ الرشید ٹرسٹ جو پاکستان میں تھا طالبان کے سپورٹروں میں سے ایک تھا اور اس نے طالبان کو مالی امداد دی اور میڈیا کی مدد پہنچائی۔

ستمبر 19، 1998 کو پاکستانی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے سعودی پرنس ترکی الفیصل جو سعودی خفیہ ایجینسی کا سربراہ تھا اور اب امریکہ میں سفیر ہے کیساتھ ملا عمر سے کندھار میں ملاقات کی۔ یہ میٹنگ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی ایمبیسیوں کی بمباری کے نتیجے میں ہوئی۔ شہزادے نے ملا عمر کو بتایا کہ اسامہ اس دہشتگردی میں ملوث ہے اور اس کیساتھ اسامہ کے مستقبل کے پلاٹوں کی معلومات بھی شیئر کیں اور اسے بتایا کہ اسامہ سعودی عرب میں امریکی ایمبیسی کو بھی نشانہ بنانا چاہتا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا۔ تین ماہ پہلے جون 1998 میں طالبان نے شہزادے سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ اسامہ کو افغانستان سے نکال دیں گے اور سعودی عرب کے حوالے کردیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ شہزادے نے ملا کو اسامہ کا یہ وعدہ بھی یاد دلایا کہ جب تک اسامہ افغانستان میں ہے وہ کسی دہشت گردی ميں ملوث نہیں ہوگا۔ یہ وعدہ بھی اسامہ نے اس وقت توڑ دیا جب اس نے کھوست میں ایک پریس کانفرنس میں لوگوں کو دہشت گردی پر اکسایا۔ اسامہ سعودی عرب میں حکومت کیخلاف تحریک کا بھی روحِ رواں تھا۔ طالبان نے ابھی تک اسے سعودی عرب کے حوالے کرنے کا وعدہ پورا نہيں کیا تھا۔

[ پرویز صاحب کی باتیں یکطرفہ ہیں اور جب تک دوسرے گروپ کا نقطہء نظر سامنے نہ آۓ یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ کس نے وعدہ خلافی کی۔ طالبان کی پچھلی کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جاۓ تو یقین نہیں آتا کہ انہوں نے وعدہ خلافی کی ہو]۔

پاکستانی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے ملا عمر کو یہ بھی بتایا کہ روسیوں کیخلاف جہاد کو پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے سپورٹ کیا تھا۔ اس نے ملا عمر سے کہا کہ وہ اسامہ کو یا تو افغانستان سے نکال دے یا پھر اسے اس کے اپنے ملک کی حکومت کے حوالے کردے۔ اس نے ملا عمر کو اسامہ کے پاکستان میں تعلقات پر بھی اندیشے کا اظہار کیا اور کہا اگر اسامہ کو افغانستان سے نکال دیا جاۓ گا تو دوسرے ممالک بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیںگے۔

ملا عمر نے دونوں صاحبان کو بتایا کہ اس نے شہزادے کیساتھ کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا اور شہزادے کو جھوٹا کہا۔ اس نے اپنی منطق گھڑی اور کہا کہ اسامہ کو اس وقت کوئی بھی ملک پناہ دینے کیلۓ تیارنہیں ہے اور اسے شمالی اتحاد والوں سے بھی خطرہ ہے جنہیں ایران کی مدد حاصل ہے۔ اس نے شکائت کی کہ سعودی اس موقع پر اس کی مدد کرنے کی بجاۓ اس پر اسامہ کا بہانہ بنا کر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

شہزادہ تب تک تو تحمل میں رہا لیکن پھر وہ اپنے ہواس کھو بیٹھا۔ اس نے ملا عمر پر انگلی تانی جو ملا عمر کو اپنے بیس سے زیادہ جانثاروں کی موجودگی میں ناگوار گزرا۔ اچانک ملا عمر اٹھا اور غصے میں باہر چلا گیا۔ ایک گارڈ بھی اس کے پیچھے گیا۔ چند منٹوں کے بعد ملا عمر واپس آیا تو اس کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس کی قمیض بازوؤں سمیت گیلی ہورہی تھی۔ کہنے لگا کہ وہ دوسرے کمرے ميں اسلۓ گیا تاکہ اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اپنے آپ کو ٹھنڈا کرسکے۔ اگر شہزادے تم میرے مہمان نہ ہوتے تو آج میں تمہیں عبرتناک سزا دیتا۔

ملا عمر نے اسامہ کا فیصلہ کرنے کیلۓ سعودی اور افغانی عالموں پر مشتمل ایک کونسل بنانے کی تجویز پیش کی۔ اس نے اسامہ کی طرح سعودی عرب میں امریکی فوج کی مخالفت کی اور کہا کہ سعودی عرب کو آزاد کرانے کیلۓ ساری مسلم امہ کو متحد ہوجانا چاہۓ۔  اس نے کہا پرانے سعودیوں کو اپنی عزت کا احساس تھا اور وہ کبھی بھی امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں داخل نہ ہونے دیتے۔ اس نے سعودی عرب اور پاکستان پر اسامہ کے بحران میں بہت کم امداد کا الزام لگایا۔ اس نے کہا کہ اس نے اسامہ سے یہ لکھوا لیا تھا کہ وہ طالبان کی حکومت میں رہ کر کسی دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوگا۔

[پرویز صاحب اسطرح کی امریکہ مخالف باتیں ملا کے منہ سے نکلوا کر یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملا امریکہ کیخلاف تھا]۔

سعودی شہزادے کو مزید غصہ آگیا اور اس نے کہا کہ ملا سعودی عرب کے لوگوں، ان کے مزہبی عالموں اور شاہی خاندان کی بےعزتی کررہا ہے۔ وہ مزید بے عزتی برداشت نہیں کرے گا۔ اگر کبھی طالبان بری نیت سے سعودی میں داخل ہوۓ تو وہ پہلا شخص ہوگا جو ان کیساتھ جنگ کرے گا۔

 ملا عمر اپنے ساتھیوں کیساتھ گیلری ميں کھڑا تھا اور اس نے پوچھا کیا ہوا؟ ڈائریکٹر نے بتایا کہ لگتا ہے شہزادہ مزید بات چیت جاری نہیں رکھنا چاہتا تھا اور وہ ایئرپورٹ چلا گيا ہے۔ لیکن ملا عمر کو ذرا بھر بھی ملال نہ ہوا کہ اس نے اپنے چند دوستوں میں سے ایک اور کو اپنا دشمن بنا لیا ہے جو اسامہ کے بحران سے اسے نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔

تم اس طرح کے آدمی کیساتھ کیسے مزاکرات کرسکتے ہو؟ وہ برے حالات میں پھنس چکا تھا اور ابھی تک پھنسا ہوا ہےاور اس نے حقیقت سے پروہ پوشی کی۔ لیکن پاکستان پھر بھی طالبان سے ناطہ توڑ کر اپنی افغانستان کی ایمبیسی بند نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ خدا جانتا ہے کہ یہ موقع ہمیں طالبان نے ہماری ایمبیسی کو آگ لگا کر اور ہمارے ایمبیسیڈر جو سٹریچر پر پاکستان واپس آیا کو مار پیٹ کر فراہم کیا۔