عمر اور اسامہ – حصہ سوئم

دوسرا تورا بورا کے پہاڑوں کا مشہور بھگوڑا صاف ظاہر ہے اسامہ بن لادن ہے۔ اگرچہ دنیا اسامہ کے ملا عمر کی بنسبت زیادہ جانتی ہے مگر یہاں پر لازمی ہے کہ اسامہ کے ماضی سے مزید پردہ اٹھایا جاۓ۔ روس کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ روس کیخلاف جہاد میں شریک مجاہدین کی مدد کیلۓ میدان میں کود پڑے۔ 1982 میں ایک فلسطینی ڈاکٹر عبداللہ عظام اور ایک اسلامی لیڈروں کے گروپ نے پشاور پاکستان میں مکتبہ الخدمت کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اسامہ عظام کا نائب تھا۔ یہ تنظمیم مجاہدین کو ہرطرح کی مالی، افرادی اور دوسری مدد فراہم کررہی تھی۔ زیادہ تر امداد سامہ بن لادن دے رہا تھا جس کا خاندان بہت امیر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ خلا میں ظہور پزیر نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کچھ عربوں کا ذاتی فعل تھا۔ امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی ہمت افزائی کیساتھ ساتھ ان کی مدد بھی کررہی تھی۔

تاہم 1980 کے درمیان میں اسامہ کے اپنے لیڈر عظام سے اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگۓ۔ وہ صرف مالی مددگار نہیں رہنا چاہتا تھا بلکہ وہ  مجاہد بن کر روسیوں کیخلاف جنگ میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ اسامہ نے افغان مجاہدین میں شامل ہونے کی بجاۓ عربوں کا ایک الگ گروپ عرب بریگیڈ بنا لیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ افغانی حقیقت پسند ہیں جو جب شکست کا خطرہ محسوس کرتے ہیں تو میدانِ جنگ چھوڑ جاتے ہیں اور پھر اگلے دن دوبارہ لڑنے کیلۓ آجاتے ہیں۔ اسامہ کے عربی مجاہدین یہاں پر اسلام کے نام پر لڑنے کیلۓ آۓ تھے اور وہ بخوشی شہید ہونا چاہتے تھے۔ لیکن دوسری طرف افغان اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے تھے جہاں وہ کھیتی باڑی کرسکیں، شادیوں اور جنازوں میں شریک ہوسکیں مگر عربوں کے جانے کیلۓ کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن پرویز صاحب کا یقین ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی ایک الگ پہچان بنانا چاہتا تھا جو افغان مجاہدین سے الگ اور اعلیٰ ہو۔

1986 میں اسامہ نے جاجی افغانستان میں روسی کمپنی کے نزدیک اپنا الگ کیمپ آباد کرلیا جوکہ پاکستانی سرحد سے دس میل کے فیصلے پر تھا۔ پوویز صاحب کا یقین ہے کہ اسامہ نے اس کیمپ کا نام اپنے نام کی مناسبت سے مسادہ یعنی شیر کا علاقہ رکھا کیونکہ اسامہ کے معنی شیر ہیں۔  بہار 1987 میں اسامہ بن لادن نے روسیوں کیخلاف جاجی میں ایک انوکھا معرکہ لڑا جس کو سارے میڈیا نے کوریج دی اور اسے سراہا بھی۔ اسطرح اسامہ نے نام کمانے کا مزہ چکھا اور اسے پسند کیا۔ اس معرکے میں دو مصری مجاہدین ابو حفس اور ابو زبیدہ بھی اسامہ کیساتھ شامل تھے۔ اس دوران اسامہ کی ایک مصری ڈاکٹر ایمن الظواہری کیساتھ دوستی ہوگئ جو پشاور میں زخمی مجاہدین کا علاج کررہا تھا۔

  القائدہ کا نام جس کا مطلب ہے “بنیاد” سب سے پہلے ڈاکٹر عبداللہ عظام نے اپریل 1988 میں ایک جریدے جہاد میں استعمال کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک ایسی تنظیم ہو جو مسلمانوں کو سوشل سروسز فراہم کرے اور یہ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے کا منبع ہو۔ اس کا القائدہ کو ملٹری کے لفظ کے طور پر استعمال کرنے کا قطعاً ارادہ نہیں تھا۔

عبداللہ عظام کے مطابق جہاد وہ ہوتا ہے جو غیرملکی قابضین کیخلاف مسلمانوں کے علاقے چھڑانے کیلۓ کیا جاۓ۔ لیکن اسامہ ان مسلمان حکومتوں کو بھی ختم کرنے کے حق میں تھا جنہیں وہ غدار مانتا تھا۔ تاہم یہ مسلمانوں میں ایک اختلافی مسٔلہ بن سکتا تھا اور عظام اس سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ یہی اختلاف ان میں علیٰحدگی کا سبب بنا۔ بعد میں اسامہ نے عظام کا چنا ہوا نام القائدہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک سال بعد نومبر 24، 1989 کو عبداللہ عظام کو قتل کردیا گیا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے قتل میں اسامہ کا ہاتھ تھا۔

[دل نہیں مانتا کہ اسامہ نے عظام کو قتل کیا ہو مگر جب اختلافات پیدا ہوجائیں تو کچھ بھی بعید نہیں ہوتا]۔

القائدہ کے بننے کے نو سال بعد فروری 1998 کو اسامہ نے ایک تنظیم اسلامک ورلڈ فرنٹ بنائی۔ اس کا مقصد فلسطین پر اسرائیلی قبضے کیخلاف مزاحمت کرنا تھا۔ دوسری طرف القائدہ ایک بین الاقوامی انتہاپسند تنظیم ہے جس کے ممبران کا تعلق بہت سے ملکوں سے ہے مگر زیادہ تر مصری ہیں۔ یہ ایک عالمی طور پر جانی پہچانی تنظیم ہے اور اس کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔

1۔ موجودہ اسلامی تنظیموں کو کٹڑ مزہبی بنانا اور جہاں پر نہیں ہیں وہاں قائم کرنا۔

2. دوسروں کو القائدہ میں شامل کرنا

3. امریکی فوجوں کو مسلم ممالک سے باہر نکالنا

4. مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی مقاصد کیخلاف لڑنا

5. مسلمانوں کی آزادی کیلۓ ان کی ہر جگہ مدد کرنا

6. مسلمانوں کے تمام وسائل کو جہاد کیلۓ مختص کرنا

القائدہ نے ایک مشاورتی کونسل یعنی شوریٰ بنائی جس کے چار حصے ہیں ملٹری، میڈیا، خزانہ اور مزہبی تعلقات۔ اس کی شاخيں کہتے ہیں کہ چالیس ممالک بشمول امریکہ اور کینیڈا میں متحرک ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اپنی سرگرمیاں افغانستان، عراق، سعودی عرب، پاکستان، ترکی، جنوب مشرقی ایشیا، شمالی افریقہ، یورپ، امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا  جاری رکھے ہوۓ ہے۔ اس کی سرگرمیاں منتشر ہیں اور یہ اپنے تربیت یافتہ مجاہدین کوتب تک چھپاۓ رکھتی ہے جب تک کسی جگہ حملہ کرنے کا موقع نہ تلاش کر لے۔

آج القائدہ بہت ساری ناکامیوں سے دو چار ہونے کے بعد جن میں زیادہ تر پاکستان میں ہوئیں اپنا نیا مرکز افریقہ کے مرکز میں مشرق سے مغرب تک پھیلا چکی ہے۔ چوٹی کے لیڈروں کے قتل یا گرفتاری کے بعد القائدہ ایک نئ شکل اختیار کررہی ہے۔ سواۓ چوٹی کی لیڈرشپ کے اس کا ارتقا ایک نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔

 پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے اسامہ کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اب تک وہ ہم سے بچا ہوا ہے۔ اپنی گرفتاری سے بچنے کیلۓ وہ برقی مواصلاتی ذرائع کی بجاۓ زمینی ذرائع استعمال کررہاہے جس کی وجہ سے اس کی کمیونیکیشن کی رفتار سست ہوچکی ہے۔ ہم اب تک اس کے کئی پیغامات پکڑنے ميں کامیاب ہوچکے ہیں۔

اسامہ کہاں چھپا ہوا ہے یہ ابھی تک سب کیلۓ ایک راز بنا ہوا ہے اور ہم دوسروں سے زیادہ اس راز کو پانے کرنے کیلۓ بیتاب ہیں۔

رامزی بن الشبیح جسے بیسواں جائی جیکرمانا جاتا ہے کی پوچھ گچھ کے دوران اسامہ کی روپوشی کی جگہ کے بارے میں کچھ اشارے ملے ہیں۔ رامزی تورا بورا کی بمباری سے بچ نکلا تھا اور بعد میں کراچی میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد اپنے دو برمی ساتھیوں سید امین اور ابو بدر کیساتھ گرفتار ہوا۔ امین نے بتایا کہ وہ اسامہ سے نامعلوم جگہ پر جون 2002 میں ملا تھا۔

خالد شیخ محمد [کے ایس ایم] تیسرے نمبر کا لیڈر جو پشاور ميں گرفتار ہوا اسامہ سے ملاقات سے انکاری ہے لیکن اس نے بتایا کہ اسامہ زندہ ہے اور ٹھیک حالت میں ہے اور دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ تھا۔ اس نے بتایا کہ آخری خط جو اسے اسامہ سے ملا وہ زمینی ذرائع سے آیا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ تورا بورا کی بمباری سے پہلے اسامہ  جلال الدین حقانی، دو افغان محمد رحیم اور امین الحق اور ایرانی بلوچ احمد الکویتی کی مدد سے وزیرستان چلا گیا تھا۔ مارچ 4، 2003 ميں خالد کے خیال کیمطابق اسامہ کنڑ افغانستان میں تھا۔

ابو فراج ال لبی جس نے خالد کی جگہ لی نے مئ 2005 میں اپنی گرفتاری کے بعد بتایا کہ اس کا بھی اسامہ کیساتھ زمینی رابطہ تھا اور اس نے آخری خط اسامہ سے دسمبر 2004 کے ارد گرد وصول کیا تھا۔ اس وقت ہم تواتر سے چھٹی رساں کی تلاش میں لگے ہوۓ تھے۔

پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ جب ہم نے وزیرستان کے پہاڑوں میں القائدہ کا مواصلاتی نیٹ ورک توڑا تو دریافت ہوا کہ ان کا مواصلاتی نظام کافی مضبوط ہے۔ اس کی چار اقسام انتظامی، آپریشن، میڈیا کی مدد اور اعلیٰ کمانڈ ہیں۔ پہلے تین دوطرفہ رابطے کے طور پر کام کرتے ہیں اور چوتھے میں القائدہ کی اعلیٰ کمانڈ یکطرفہ رابطہ پر عمل کرتی ہے  اور یہ رابچہ صرف اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔

پہلی قسم میں صرف خاندانوں کی حرکت اور ان کی منتقلی اور دوسری انتظامی سرگرمیاں ہیں اور خاندانوں اور معاونت کرنے والوں میں دوطرفہ رابطہ ہے۔ افغانی اور پاکستانی ملکر یہ کام کرتے ہیں۔

آپریشن میں لوگ کاموں کی اطلاعات دیتے ہیں اور ان لوگوں کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ حفاظتی اقدامات کے طور پر کوڈ ورڈ اور کٹ آؤٹ استعمال کرتے ہیں اور یہ لوگ کافی تجربہ کار ہیں۔

میڈیا والی قسم پروپیگنڈہ اور لوگوں کو قائل کرنے کیلۓ استعمال ہوتی ہے۔ یہ مواد سی ڈی، بروشر اور وڈیو وغیرہ کی شکل میں الجزیرہ ٹی وی کو پہنچایا جاتا ہے۔

چوتھی قسم صرف القائدہ کی اعلیٰ کمانڈ استعمال کرتی ہے جو کہ کوشش کرتی ہے کہ لکھے ہوۓ پیغامات نہ بھیجے جائیں سواۓ ضروری کاموں کے مثلاً خالد اور لبی کے خطوط ۔  اکثر القائدہ کے لیڈر اپنے خاص اور تربیت یافتہ جانثاروں کے ذریعے زبانی ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے ہیں۔

یہ تھوڑے عرصے کی بات ہے جب اسامہ بن لادن پکڑا جاۓ گا۔ وہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اگر مجھے اندازہ لگانے کو کہا جاۓ تو میں کہوں گاکہ اسامہ افغانستان پاکستان کی سرحد کے آس پاس کہیں چھپا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کنڑ میں بہت سارے سعودی رہتے ہیں اور یہ وہ جگہ ہوسکتی ہے جہاں اسامہ چھپا ہوا ہو لیکن اس بات کو یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔

میں مزاق سے کہ چکا ہوں” میں شکر کروں گا کہ وہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں پاکستان میں نہ پکڑا جاۓ”۔

[پویز صاحب کی اسامہ کے بارے میں رپورٹ مغرب کو تو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ کمر باندھ کر اسامہ کے پیچھے پڑے ہوۓ ہیں مگر دوسری طرف ہوسکتا ہے اسلام کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش میں وہ عوام میں مقبولیت مزید کھو بیٹھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے پرویز صاحب یہ سمجھتے ہوں کہ عوامی مقبولیت سے زیادہ بیرونی طاقتوں کی حمائت حکومت قائم رکھنے کیلۓ زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اسی تگ و دو میں پرویز صاحب کہیں کہیں وہ باتیں کہ گۓ ہیں جو ایک مسلمان کی حیثیت سے زیب نہیں دیتیں]۔