بلاگر جاوید اقبال نے بڑے مزے کی بات کہی ہے یعنی اپریل فول کے جھوٹ اور باقی دنوں کے جھوٹ میں اتنا فرق ہے کہ اپریل فول کا جھوٹ ظاہر کر دیا جاتا ہے جبکہ باقی دنوں کا جھوٹ جھوٹ ہی رہتا ہے۔

اب موجودہ حکومت کی مثال ہی لے لیں۔ اپنے وزیراطلاعات اور وزیر پانی اور بجلی نے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ سننے والا کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرنے لگتا ہے۔

اچھا ہوتا اگر ہم اپریل فول کی بجائے اس دن کا نام راجہ فول، گیلانی فول، کائرہ فول یا زرداری فول رکھ دیتے۔ باقی بھی سب فول ہیں مگر وہ آٹو مکینک کی اصطلاح میں ان کے “چھوٹے” ہیں۔

راجہ پرویز اشرف دو سال سے کہہ رہے ہیں کہ اب لوڈشیڈنگ ختم ہوئی سو ہوئی مگر وہ جتنا لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں لوڈشیڈنگ اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ وزیراعظم ایک طرف کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دو سال مشکل کے تھے اور اب عوام کو ریلیف دیں گے مگر ساتھ ہی بجلی کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور آج اپریل فول کے موقع پر تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ حکومت کا اپریل فول ہواور عوام کیساتھ وقتی طور پر مذاق کیا گیا ہو۔

صدر زرداری نے تو وعدہ خلافیاں کر کر کے جھوٹ کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ لگتا ہے وہ ہندو مصنف چاکیہ کی کتاب پر حرف بہ حرف عمل کر رہے ہیں یعنی جھوٹ بولو اور اپنا کام نکالو۔

وزیراطلاعات کا کام ہی اب حکومتی اقدامات کی صفائی دینا رہ گیا ہے۔ جب بھی کوئی غلط اقدام اٹھایا جاتا ہے اور دنیا حکمرانوں پر لعنت ملامت شروع کر دیتی ہے تو اسی وقت کائرہ صاحب صفائی پیش کرنے ٹی وی چینلوں پر پیش ہو جاتے ہیں۔