ہم لوگ کولہو کے بیل ہیں جو ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور اس چکر سے نکل ہی نہیں پاتے۔ جس بات کی رٹ لگانا شروع کرتے ہیں مہینوں اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ انگریزی محاورہ “تھنک آؤٹ آف دا باکس” بہت مشہور ہے اور کمپنی کی میٹنگز میں اکثر احباب کا اس سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کا بہترین حل نکالنے کیلیے ضروری ہے کہ ہم لوگ روائتی سوچ کی بجائے الگ قسم کا غور و خوض کریں۔ مثال کے طور پر اگر کسی سکول کا نتیجہ برا آتا ہے تو سب یہی کہیں گے کہ استاد نکمہ تھا۔ مگر وکھری سوچ کا مالک کچھ اور ہی سوچے گا۔ وہ یہ بھی کہ سکتا ہے کہ سکول کا ماحول پڑھائی کیلیے سازگار نہیں ہے، کوئی ایک نالائق طالبعلم سارے ماحول کو گندہ کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ویسے خاور صاحب کا بلاگ اس وکھری سوچ کی ایک عمدہ مثال ہے۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد اپنے قارئین سے گزارش کرنا ہے کہ وہ جب بھی تحریر پر بتصرہ کریں ایک تو موضوع سے نہ ہٹیں، دوسرے ذاتیات پر نہ اتر آئیں، تیسرے کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہ کر دیں بلکہ جو لکھا گیا ہے اس پر اپنی وکھری قسم کی رائے دیں۔
اگر آپ تمام بلاگز کی تحاریر پر لکھے گئے تبصروں کا جائزہ لیں تو نوے فیصد موضوع سے ہٹ کر ہوں گے۔ اس طرح ایک تو لکھنے والے کی محنت ضائع ہو جاتی ہے دوسرے قاری کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ امید ہے تمام بلاگرز اور تبصرہ نگار ہماری گزارش پر غور کریں گے اور آج سے تبصرے کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔
16 users commented in " دائرہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآؤٹ آف دی باکس کے متعلق آپ کی بات بالکل درست ہے۔ نا صرف یہ کہ تبصرہ آؤٹ آف دی باکس ہونا چاہیے بلکہ تحریر بھی میرے خیال سے آؤٹ آف دی باکس ہونی چاہیے۔
آپ کے بلاگ پر پچھلی تحریر اس آؤٹ آف دی باکس اصول کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
محترم عرض یہ ھے کہ بلاگ پر ہر طرح کی تحریر ھوتی ھے۔بعض اوقات اختلاف ھونے کے باوجود کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ لکھنے والے کی تحریر سے اچھی نیت ہی محسوس ھوتی ھے۔اس لئے بعض بلاگر موضوع سے ھٹ کر تبصرہ کرتے ہیں۔کہ لکھنے والے کی حوصلہ افزائی ھو۔
بعض ایسے ضرور ہیں کہ جھاڑیوں میں پھنس جاتے ہیں۔
میرے خیال میں جیسا ھے ایسا ہی اچھا ہے بلاگ پر کئے گئے تبصروں سے کئی نئی باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔اردو بلاگ پر انگلش میں غیر ضروری لمبے تبصرے کاٹ دینے چاھئیں۔
درست کہا
آپ جس احمق کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے آگے بین بجانے کے بجائے لاتوں کے بھوت والی کہاوت بزرگوں نے کہی ہے۔
This is an invalid entry!! please try again
بارہ سنگھے اور جھاڑیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے
یہ تبصرہ کیسا لگا آپ کو۔۔۔
موضوع پر بھی ہے
اور وکھرا بھی۔۔
يعنی ہم لوگ نشئی ہيں يا مستانے پروانے وغيرہ دائرے ميں تو وہی گھومتے ہيں
میں بھی اس بات سے بڑا پریشان ہوں
لوگ چور کو چھوڑ کے اس کی لنگوٹی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں
استاد، سکول ، نالائق طالبعلم اور نتیجے سے اپنی ایک آپ بیتی یاد آ گئی
جلدی پوسٹوںگا
اگر میں ناچیز ایک بات زرا ہٹ کر کہہ دوں تو آپ سب کی طبیعت پر نا گوار نہیں گزرے گا ۔۔ اور آپ مجھ کم علم کم عقل کو معاف کر دیں گے ، مجھے جب کوئی تحریر بور کرتی ہے تو میں اس پر زرا ہٹ کے تبصرہ کرتی ہوں ۔ کیوں کے تبصرہ کرنا بھی ضروری یا اچھا لگتا ہے ۔۔ایک وجہ یہ ہوتی ہے ۔ اب جو موضوع ہے ۔ اس کے بارے میں یہی کہوں گی ہم پاکستانی الگ قسم کے لوگ ہیں ہمارے اپنے ہی روگ ہیں ۔۔ ہم کسی کے دشمن بن جاہیں تو کسی صورت معاف نہیں کرتے ۔ ہم کو کوئی کہہ دے کہ فلاں جگہ بم ہے دور ہو جاو تو ہم وہی جاکر بم تلاش کریں گے کہ زرا دیکھیں کیسا ہوتا ہے بم ۔ پھر ہم تو نہیں دنیا ہیمں دیکھتی ہے ۔ ایک الگ حالت میں ۔۔۔
ویسے آپ اس کولہو کے بیل والی صورت حال سے باہر نکل آئے ہیں؟؟؟
لگتا تو نہیں لیکن شائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بات آپ لوگوں کے مطلب کی ہو اس پر کولہو کا بیل بھی چلتا ہے جیسے دو یہاں بطور مثال موجود ہیں،اور
اسی لیئے دوسرے انسانوں کو بھی جانور سے تشبیہ دیتے رہتے ہیں!
🙂
میری ایک غزل ہے، دائرے میں بھنور میں رہتے ہیں۔۔۔ لوگ جو اِس نگر میں رہتے ہیں۔۔۔ ریلیونٹ ہے۔۔۔ میرے بلاگ پر پڑھیے گا امید ہے پسند آئے گی۔۔۔ مین پیج پر ہی ہے کیونکہ آخری وہی لکھی تھی۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
واقعی آپ کی بات بالکل درست ہےاوربات کہاں کی کہاں پہنچ جاتی ہےکیونکہ اکثرایساہوتاہےتحریرکےبعدجب تبصرےپڑھتےہیں توپہلےذہین میں جوتبصرہ ہوتاہےوہ آخری تبصرےتک بہت حد تک بدل چکاہوتاہے۔
والسلام
جاویداقبال
میں نے کہا تھا نہ؟ اس احمق کو اس کے حال پر چھوڑ دیں احمق کی سب سے بڑٰ سزا یہی ہوتی ہے کہ اس کو سمجھایا نہ جائے بلکہ اس کو احمق ہی چھوڑ دیا جاے۔
ٹرینڈی کہتے هیں جی امریکی اس بات کو
لیکن جب ایک ٹرینڈ بن جائے تو کسی کو تو ایسا قدم اٹھانا هی پڑے گا که لوگ بھالے ٹرینڈ سے نکلیں
پاکستان ميں هونے والے کسی واقعے پر جب اخبار لکھتے هیں تو بلاگر بھی اسی پر لکھنا شروع هو جاتے هیں حالانکه ان کو معاملے کی تعلیم اتنی هی هوتی ہے جتنی اخبار والوں نے دینی مناسب سمجھی هوتی ہے
تو ایسے وقت ميں کوشش کرتا هوں که اچھو ڈنگر یا گڑتھو چوہڑے کی کوئی بات لکھ کر ٹرینڈ کو کوما یا فل سٹاپ لگا دوں
فلسطین کے غم میں پریشان لوکاں کو کون سمجھائے که میرے اپنے پاکستانی کن دکھوں کے شکار هیں
میرے پاکستانی ریھڑیوں والے ٹانگے چلانے والے (اج کے دور میں چاند گاڑی)دوکان دار مزدور لوگ جن کے خاندان میں ناں کوئی سیاست دان ہےا ور ناں هی کوئی افسر
جب گدھوں کو بات سمجھ میں نہیں آتی تو وہ بات کہنے والے کواحمق کہنا شروع کردیتے ہیں!!!!
اور اپنی دولتیاں چلا کر ثابت کرتے ہیں کہ وہ کتنے بڑے گدھے ہیں!!!!!
🙂
Leave A Reply