پرانی بات ہے ہمارے محلے میں ایک خاندان کے بچے جسمانی طور پر بہت کمزور اور دبلے پتلے تھے۔ یہی وجہ ہے وہ جب بھی لڑتے، دوسرے بچوں سے مار ہی کھاتے۔ مگر ان کی ایک عادت تھی کہ وہ لڑائی میں ہار نہیں مانتے تھے۔ وہ مار بھی کھاتے رہتے اور یہ فقرہ دہراتے رہتے “اب کے مار کے دیکھ”۔
یہی حال آج کل ہماری حکومت کا ہے۔ جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں جعلی ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر ہماری حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ کتنے ڈھیٹ ہیں وہ ممبر پارلیمنٹ جن کی ڈگریاں جعلی قرار دی گئی ہیں مگر وہ اب بھی ڈھٹائی سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ قانونی طور پر وہ تب تک ممبر پارلیمنٹ رہ سکتے ہیں جب تک الیکشن کمیشن ان کی رکنیت کینسل نہ کر دے مگر اخلاقی طور پر تو ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔
لگتا ہے جعلسازوں کو یقین ہے کہ یہ جعلسازی ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس لیے انہیں مستعفی ہونے کی جلدی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ چاہتے ہیں جتنے دن ممبر پارلیمنٹ رہ کر قوم کا خزانہ لوٹ سکیں لوٹ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نوکری سے کسی کو نکالنا ہو تو اسے کوئی نوٹس نہیں دیا جاتا بلکہ ایک دم اسے اپنا بوریا بستر سمیٹنے کا حکم ملتا ہے تا کہ وہ کمپنی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ بعض اوقات تو ملازم کو اگلے دن دفتر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور گیٹ پر ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہماری حکومت اور انتظامیہ ہے کہ جعلسازوں کو مزید وقت دے رہی ہے کیونکہ نہ تو قومی خزانہ ان کے باپ کا ہے اور نہ ملک۔
13 users commented in " ڈھیٹ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackباقی تو سب ٹھیک ہے لیکن پنجاب کے ذکر پر ہو سکتا ہے کہ اعتراض ہو۔
چلیئے آپ نے یہ تو مانا کہ مارنے والے کون تھے!!!!
🙂
رہی حکومت کی بات تو حکومت کا شمار بھی مارنے والوں میں ہوتا ہے !!!!
آپ کو اور کوئی مثال نہیں ملی اپنی بات سمجھانے کے لئے؟
اپنے آپ کو تھوڑی دیر کے لئے دوسری قوم کا ایک فرد تصور کیا کریں۔ پھر اپنے قلم کو حرکت دے کر دیکھیں کہ آیا الفاظ بدلتے ہیں کہ نہیں۔
اب بھی اگر آپ اتنے ہی سادہ لوح ہیں تو سمجھائے دیتا ہوں۔
عنوان ہے ڈھیٹ
پہلا پیرا گراف میں آپ نے یہ ثابت کیا کہ مہاجر بچے “ڈھیٹ“ تھے۔
ان “ڈھیٹ“ مہاجر بچوں کو آپ نے مماثل کیا قومی اسمبلی کے جعل سازوں سے۔
تنیجہ یہ نکلا کہ جسطرح مہاجر بچے “ڈھیٹ“ تھے اسی طرح قومی اسمبلی کے جعل ساز مجرم ڈھیٹ ہیں۔
اتنا کافی ہے یا اور سمجھاؤں۔
کوئی بات نہیں۔
جب کسی بلاگ پر موجود گمنام تبصرہ کاروں کی طرف سے ردعمل میںکوئی ایسا ہی پنجاب بیزاری پر مبنی تبصرہ آئے گا تو خود سمجھا آجائے گی۔
اس قسم کی ایک فنکاری آپ پچھلے ہفتے پٹھانوں کے ساتھ لگا چکے ہیں۔
دوسروں سے حسن اخلاق کی توقع رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ شکریہ
آپ کی مثالیں آج کل کچھ عجیب سی ہو گئی ہیں
کہیں لکھنے والا بندہ تو نہیں بدل گیا؟
عثمان کا تبصرہ اب پڑھا ہے
اور میرے خیال میں اس نے ٹحیک ہی لکھا ہے
عثمان نے اس تحریر کی خامی بتادی ہے۔ اس قسم کی پرووکیٹیو تحاریر سے پرہیز برتا کریں۔
آج کل قسمت اپنا ساتھ نہیںدے رہی یا پھر ہم کچھ زیادہ ہی زیرعتاب ہیں۔ لکھتے ہوئے ہمارے بھی ذہن میں عثمان صاحب جیسا خیال آیا مگر پھر سوچا ہو سکتا ہے قارئین مہاجر پنجابی کی بجائے ڈھیٹ کی طرف زیادہ دھیان دیں۔ چلیں غلطی تو ہو گئی اب اس کا ازالہ ہم تحریر میں رد و بدل کر کے کر دیتے ہیں اور آئندہ مزید احتیاط کرنے کا پھر سے وعدہ کرتے ہیں۔ ان سب کا شکریہ جنہوں نے ہماری غلطی کی نشاندہی کی۔
لگتا تو نہیں ہے لیکن شائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🙂
جزاک اللہ عثمان صاحب اللہ تعالی آپ کے قلم میں اور طاقت دے و سارے بلاگرز کو آپ جیسی مثبت سوچ دے،،
اَمین،،
میں نے اردو بلاگرز پر آپ کی یہ پوسٹ تو ادھر تشریف لانے کی ہمت نہ ہوئی۔عثمان سے متفق ہوں۔اور آپ کی تصیح کر نے کا شکریہ۔
چچا جی اج کل زیادہ پینا شروع کر دی ھے ،،
محترم میرا پاکستان
تُسی وڈے شرارتی ہو۔۔۔
بدتمیز صاحب
بہت دکھ ہوا آپ کا تبصرہ پڑھ کر۔
Leave A Reply