مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت بناتے ہی بجٹ پیش کر دیا۔ اتنے کم دنوں میں بجٹ بنانا ناممکن ہے اسلیے ہمارا خیال یہی ہے کہ موجودہ بجٹ نگران حکومت نے آئی ایم ایف کی زیرنگرانی بنایا اور اسحاق ڈار نے اس کی نوک پلک سنوار کر اسمبلی میں پیش کر دیا۔ جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ ملک میں سرکاری ملازمین مظاہرے کریں گے اور اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تنخواہوں میں اضافے پر مجبور ہو جائے گی۔ یہی کچھ ہوا اور آج سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیسد اضافے کا اعلان کر دیا گیا۔
بجٹ میں بہت سارے ٹیکس لگائے گئے ہیں جن سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ اضافہ ہو بھی چکا ہے۔ کچھ ٹیکسز تو بجٹ کی منظوری سے پہلے ہی لگا دیے گئے ہیں۔
اچھا ہوتا جو بجٹ میں دفاعی اخراجات میں کمی کی جاتی اور تعلیم اور صحت پر زیادہ خرچ کیا جاتا۔ لیپ ٹاپ اور انکم سپورٹ سکیمیں ختم کر دی جاتیں اور ان کی جگہ پر آنے والی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلیے ٹھوس قسم کے اقدامات کیے جاتے۔
لوڈشہڈنگ کم کرنے کیلیے پلاننگ کی جو باتیں ہو رہی تھیں ان کا بجٹ میں کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔
بجٹ کی تقریر کے بعد کم از کم یہ تو یقین ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس مستقبل کی کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ یہ بھی ڈنگ ٹپاؤ اور مال بناؤ کی پالیسی پر گامزن لگتی ہے۔ پتہ نہیں اس طرح کی غیرسنجیدہ حکومتوں کو بہتر کارکردگی دکھانے پر مجبور کرنے کیلیے فوج کیوں پریشر نہیں ڈالتی اور خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ پتہ نہیں سول سوسائٹی کیوں مہنگائی کیخلاف آواز نہیں اٹھاتی۔ پتہ نہیں لوگ کیوں مہنگائی کے عذاب کیخلاف چوں چراں نہیں کرتے۔
وہی بات ہے کہ اس ملک کو وہی ٹھیک کر سکتا ہے جو نیک، صالح، پرہیزگار اور سچا مسلمان ہو گا۔ یہ مسلم لیگ ن بھی کچھ نہیں کرے گی سوائے دکھاوے کے عمرے کرنے کے اور وہ بھی سرکاری خرچ پر۔