جنگ کی خبر کے مطابق جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ فہم و فراست بی اے کی ڈگری سے مشروط نہیں۔
ہمیں نہیں معلوم محترم جسٹس صاحب نے یہ بات کس تناظر میں کی ہے۔ یہ بات تو دنیا جانتی ہے کہ فہم و فراست اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر تعلیم فہم و فراست کیلیے ضروری نہ ہوتی تو رب اپنے محبوب صلعم کو کبھی بھی پڑھنے کیلیے نہ کہتا۔ ہمارے نبی کی نبوت کا آغاز ہی پڑھنے سے ہوا تھا۔ ویسے بھی نبی پاک صلعم کا ارشاد ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔
آج کل جتنے بھی ترقی یافتہ ملک ہیں ان کے سربراہوں میں سے کوئی بھی انپڑھ نہیں ہے۔ اگر ہم لوگ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو پھر زمانے کے جدید اوزاروں کو کیسے استعمال کر پائیں گے۔ یہ جاہل حکمرانوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہمارا ملک ابھی تک ترقی پذیر ہے بلکہ اب تو غریب ملک بنتا جا رہا ہے۔
تعلیم سے آدمی میں شعور اجاگر ہوتا ہے، وہ اچھے برے کی پہچان کرنے لگتا ہے اور گناہ کرنے سے پہلے سوبار سوچتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بی اے کی شرط تعلیم یافتہ ہونے کیلیے ضروری نہیں مگر فہم و فراست کیلیے تعلیم کا ہونا ضروری تھا اور ضروری ہے۔
7 users commented in " فہم و فراست اور تعلیم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسائیں فہم و فراست تعلیم کی دین نہیں۔ ورنہ بھٹو صاحب، بی بی جی جو باہر کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے اس ملک کی حالت نہ بدل دیتے۔ زرداری اور گیلانی کی تعلیم پر مجھے شک ہے لیکن بھٹو خاندان تو ہمیشہ اعلی تعلیم یافتہ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہمیں۔ نہ حاکموں کو نہ محکوموں کو۔
تعلیم کا فائدہ اس صورت میں ہوتا ہے جب اس سے ملنے والی فہم و فراست کا پازیٹو استعمال کیا جائے ۔۔ اس ملک کو تعلیم یافتہ لوگوں نے ہی زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔۔ ذاتی مفادات کو ملکی مفاڈات پر ترجیح دے کر ۔۔
جناب آپ سمجھے نہیں۔ یہ فقرہ بی اے پاس ارکان اسمبلی کے بارے میں تھا جو کہ اتنا غلط بھی نہیں
فہم و فراست یقینا بی اے کی ڈگری کا محتاج نہیں۔
رعایت کے بجائے اصول یعنی ‘رول ناٹ ایکسیپشن’ کی نظر سے دیکھا جائے تو فہم و فراست کا تعلیم سے نہایت گہرا تعلق ہے ۔ گریجوٹ اسمبلی کی شرط گو کہ ایک اچھے رجہان کی طرف اچھی نیت سے کیا جانے فیصلہ تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تعلیمی تعصب یا ‘ایجوکیشنل ڈسکریمینیشن’ کے ذمرے میں آئے گا۔ شاید اسی وجہ سے میری ناقص معلومات کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کم از کم امریکہ میں صدر، سینیٹر یا کانگریس کا رکن بننے کے لئے کوئی تعلیمی ڈگری شرط نہیں لیکن پھر بھی میں سے بڑی اکثریت یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں تعلیم کو عام کیا جاے تاکہ جو طبقہ رہنمائی کے لئے آگے بڑھے وہ دین کی سمجھ، معاملہ فہمی، فراست اور جدید تعلیم سے آراستہ ہو۔
فہم و فراست کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو یہی جانتا ہوں۔ بی اے، ایم اے وغیرہ تو صرف اس بات کے اعشاریئے ہیں کہ یہ انسان کتنی بات لکھ پڑھ سکتا ہے۔
فہم و فراست تو اللہ کی دین ہے۔ جسے چاہے دے۔
فہم و فراست بی اے کی ڈگری سے مشروط نہیں۔ تو جعل سازی ڈگریوں سے مشروط ہے۔
Leave A Reply