فرض کریں ہمارے آقاڎں کے ملک میں کوئی مصبت آجاتی ہے اور وقتی طور پر انہیں اپنی افواج افغانستان سے واپس بلانی پڑجاتی ہیں۔ ان کی رخصتی کے بعد اس خلا کو پر کرنے کیلۓ انڈیا اپنے مفادات کیلۓ افغانستان پر چڑھائی کردیتا ہے۔ جب ہمارے آقا اپنی قومی آفت سے فارغ ہوتے ہیں تو انہیں افغانستان کی فکر دوبارہ دامن گیر ہوتی ہے۔ وہ اب انڈیا کیساتھ اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے براہِ راست ٹکر لینے کی بجاۓ دوبارہ پاکستان کی مدد مانگتے ہیں اور درپردہ ہرقسم کی مدد کی یقین دہانی کراتے ہیں جس طرح انہوں نے روس کیخلاف کی تھی۔ اب اس صورت ميں جنرل پرویز مشرف کیا کریں گے۔ آئیں فرض کرتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف سے کہا جاۓ گا کہ وہ مجاہدین کو تیار کریں اور انہیں اسی طرح افغانستان میں داخل کرنا شروع کردیں جسطرح جنرل ضیا نے روس کیخلاف کیا تھا۔ اس صورت میں جنرل مشرف اپنی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو چھوڑ کر تسبیح اور مصلہ پکڑ لیں گے اور کافروں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیں گے۔ تھری پیس سوٹ کی جگہ شلوار قمیض اور شیروانی لے لے گی اور جنرل صاحب ہندوؤں کیخلاف سیدھے سادھے مسلمانوں کے جزبات کو ابھار کر اپنے آقاؤں کو افرادی قوت فراہم کرنا شروع کردیں گے۔ روشن خیالی اور اعتدال پسندی سے توبہ کرلیں گے اور رمضان میں عمرے کی سعادت کے دوران مسجدِ نبوی میں عبادت کرتے ہوۓ پاۓ جائیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے پرویز صاحب جنرل ضیا سے بھی دو ہاتھ آگے نکلیں اور باقاعدہ داڑھی رکھ لیں۔ شرابی بھٹو کی طرح جس نے اپنی حکومت بچانے کیلۓ شراب پر پابندی لگائی تھی جنرل مشرف صاحب بھی شراب کباب کی محفلوں پر چھاپے ڈالنے شروع کردیں۔ سینماؤں میں چلنے والی عریاں فلمیں ضبط کرلی جائیں۔ میراتھان بند کردی جاۓ اور الحمرا حال پر چلنے والے لچر ڈراموں پر بھی پابندی لگا دی جاۓ۔ نیو ایئر اور بسنت کو خلافِ اسلام قرار دے دیا جاۓ ۔ جنرل صاحب اسمبلی میں حدود آرڈینینس کی ترمیم نہ صرف واپس لے لیں بلکہ اس میں مزید اسلامی شکوں کا اضافہ کردیں۔ لیکن یاد رہے کہ اس ساری تبدیلی کے دوران عوام کی حالت جوں کی توں رہے گی اور حکومت صرف اسلامی نظام کے نعروں سے غریبوں کے خالی پیٹوں کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتی رہے گی بلکہ درپردہ حکومت عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوۓ غریبوں کا عرصہ حیات مزید تنگ کردے گی۔ ملک میں پھر دھماکے شروع جائیں گے اور ان کا الزام بھارتی تخریب کاروں پر لگایا جایا جاۓ گا۔ کشمیر میں مجاہدین دوبارہ متحرک ہوجائیں گے اور انڈیا کو دونوں محاذوں پر الجھا دیا جاۓ گا۔
آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر اس طرح کی صورتِ حال پیش آجاۓ تو جنرل صدر پرویز صاحب ایسا ہی کریں گے جیسا ہم نے فرض کیا ہے یا اپنی صاف گوئی اور کھرے پن کی لاج رکھتے ہوۓ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے اپنے مشں کو جاری رکھیں گے۔
5 users commented in " اگر ہمارے آقاؤں کے منصوبے بدل جائیں تو؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاسطرح کی صورت حال میں جب کے افواج آقا کو افغانستان چھوڑنا پڑے تو موجودہ حالات کے تناظر میں بھارت کو حملہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ بھارت کو باقاعدہ کنٹرول دیا جائے گا۔ امریکہ اگر دنیا کا ڈی ایس پی ہے تو اس خطے کے لیے بھارت کی حیثیت تھانیدار کی ہے اور پاکستان دھوپ میں کھڑے اس سپاہی کی طرح ہے جس کو نہ کھانا ملتا ہے نہ سواری ۔ ۔ ۔
اور اگر صورت حال ایسی ہو جائے جیسی آپ نے بیان کی ہے تو پرویز مشرف کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا کیونکہ اسکی بی ٹیم یعنی ایم ایم اے منظر عام پر آجائے گی اور وقت پڑھنے پر شیخ رشید اور شیر افگن جیسے لوگ گناہوںسے تائب ہو کر مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ اور جماعت اسلامی پھر سے نعرے لگاتی پھرے گی
پرویز کا مقدر پرویز کا نصیب
نصرم من اللہ و فتح قریب۔۔۔
میں راشد کامران صاحب کے پہلے بند سے متفق ہوں لیکن دوسرے میں یہ ترمیم کروں گا کہ مولانا فضل الرحمٰن پرویز مشرف کے آلہ کار بن جئیں گے اور مسلم لیگ نواز ۔ جماعت اسلامی تحریکِ انصاف حزبِ اختلاف ہوں گے اور سڑکوں پر بھی نکل سکتے ہیں ۔
سات آٹھ سال قبل ایک مجاہد کمانڈر نے کسی جگہ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا انشاء اللہ چودہ سال بعد روس والا حال امریکہ کا بھی ہو گا ۔ موجودہ حالات نے مجھے یہ بات یاد دلا دی ہے ۔
روس اور امریکہ میں بڑا فرق ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ امریکہ کا روس والا حال ہوگا وہ احمقوںکی جنت میں رہتے ہیں۔ امریکی سوسائٹی اور سابق سوویت یونین کے معاشرے میں بڑا فرق ہے۔ وہ گھٹن کی دنیا تھی اور یہ آزادی کی دنیا ہے۔ روس اندرونی طور پر کمزور تھا، کوئی شخص کمیونزم کے خلاف آواز بلند نہیںکرسکتا تھا۔۔ جبکہ یہاں امریکہ میں نہ صرف مذہبی بلکہ شخصی آزادی بھی حاصل ہے اور نہ صرف یہ کے ان لوگوں کو جو کہ امریکی شہری ہیں بلکہ انکو بھی جو امریکی شہری نہیں ہیں۔ ان حالات میں امریکی عوام اپنی ملک کے خلاف نہیںہیں بلکہ وہ حکومت کی پالیسیوںکے خلاف ہیں۔
راشد صاحب
حالات آپ کی پیشین گوئی کی تائید کررھے ہیں۔ لگتا ہے آپ نے اجمل صاحب کے کمنٹ کا جواب دیا ہے۔ دراصل اس تحڑیر میں ہم نے صرف اندازھ لگانے کی کوشش کی تھی کہ حالات بدلنے کی صورت میں موجودہ حکومت کیا کرے گی اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت اس طرح اپنے موجودہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے قول سے اس طرح پھر جائے گی جس طرح تھالی میں کھیر پھر جاتی ہے۔
پہلا سوال تو یہ کہ ہندوستان ، افغانستان میں کس طرف سے مداخلت کریگا؟ میرے ناقص علم کے مطابق بھارت اور افغانستان کی کوئی مشترکہ سرحد نہیں۔ لیکن چلیں اگر فرض کر لیا جائے تو پھر آپ کی باتوں سے اتفاق کرنا ہی پڑیگا۔ لیکن مشرف صاحب ایسے ہی ڈھیٹ رہینگے۔
اگر مشرف صاحب کے آقا افغانستان سے افواج واپس بلا لیں تو اگلے ہی دن مشرف صاحب کی صدارت جاتی رہیگی۔ سو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کس پوزیشن میں ہوں گے۔ کسی جیل میں یا بدستور صدر؟؟؟
Leave A Reply