وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ وہ سرائیکی صوبے کے حامی ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں نے بھی پنجاب کو تقسیم کر کے اس کے اندر مزید صوبے بنانے کی حمایت کی ہے۔ جب صوبہ سرحد کا نام بدلا گیا تو ہزادہ صوبے کی حمایت میں تحریک چلی مگر کسی نے اس کو اہمیت نہیں دی۔
جب حکومت سمیت سب لوگ مزید صوبوں کے حامی ہیں تو پھر حکومت بسمہ اللہ کر کے اسمبلی میں تحریک پیش کیوں نہیں کر تی۔ کبھی کبھی صورتحال واضح ہونے کے باوجود اتنی گھمبیر ہوتی ہے کہ ایسے لگتا ہے کچھ بھی کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے اور کوئی غیبی طاقت ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کیلیے حکومت اور اس کی حامی حزب اختلاف کبھی مزید صوبوں کی بحث چھیڑ دیتی ہے تو کبھی بھٹو کیس دوبارہ کھول دیتی ہےتا کہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، لاقانونیت، ڈورون حملے جیسے اہم مسائل کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ جائے۔
6 users commented in " پھر دیر کس بات کی؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackگيلانی صاحب نے کہا تھا کہ اگلے منشور کا حصہ ہو گا يعنی اُن کی پارٹی کو اگلے انتخابات ميں پھر اپنے اُوپر مسلط کر ليں تو اسے منشور ميں شامل کيا جائے گا ۔ اس وقت جو ان کا منشور ہے اُس پر کتنا عمل ہوا ہے ؟
اقتدار کی چھیل چھبیلی دیوی کو اپنے گھر کی لونڈی بنائے رکھنے کے لئیے ٹوپی ڈرامہ کیا جارہا ہے۔
انہیں اگر ووٹ لینا ہو تو یہ َ”کالا شاہ کاکو” کو بھی صوبہ بنانے سے باز نہ آئیں ۔
یہ اس قسم کے حکمران دیگر سیاستدان جو ہر قسم کے اصول و اخلاق سے عاری ہیں ۔ انہی لوگوں کی وجہ سے آج پاکستانی قوم عذاب سے گزر رہی ہے۔ مگر بادشاہوں کو اپنی رعایا کی بجائے اپنی گدی سے غرض ہے۔ مشرف بے غیرت نے بھی قوم کو ھلہ گلہ کی طرف توجہ کرانے کے لئیے مہنگائی اور غریبی کی چکی میں پسی عوام کو کالا باغ دیم اور حقوق نساں وغیرہ کے دیگر چوہے چھوڑے تھے ۔ یہ نالائق حکمران بھی۔ چیف جسٹس کی بحالی میں رکاوٹیں، توہین رسالت بل سی چھیڑ چھاڑ۔ بھٹو کیس کا ری اوپن اور دیگر شوشہ جات اور اب یہ نیا شوشہ۔ محض عوام کو ٹرک کی بتی کی سرخ روشنی دکھا کر کہتے ہیں کہ جاؤ ہاتھ لگا آو پھر سوچتے ہیں ترک بھگتا رہے نہ سرخ روشنی رکے گی نہ ہاتھ لگے گا اور کچھ وقت تک کے لئیے عوام اپنے مطالبات یعنی مہنگائی روزی روٹی غریبی افلاس پانی بجلی ان سب ذمہ داریوں سے کچھ عرصہ کے لئیے عوام حکمرانوں کی جان نہیں ستائیں۔ یعنی یہ ہر کچھ عرصہ بعد ترک کی ایک سرخ بتی عوام کو دکھا دیتے ہیں۔
اگر شعور ہوتا تو اب تک کئی حکومتوں اور حکمرانوں کو عوام فارغ کر چکے ہوتے۔ اس وقت تک۔ جب کو خوف خدا سے ڈرنے والا۔ اہل۔ دیانتدار، اور اپنے عہد پہ پورا اترنے والے حکمران اور رہنماؤں کو دریافت کر چکے ہوتے۔
’صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں ۔۔ہمیں پنجاب سے زیادہ پاکستان پیارا ہے۔۔ سرائیکی، بہاولپور اور پوٹوہار صوبے بننے چاہیے۔ ’پنجاب کے بڑے صوبے ہونے کی وجہ سے ہی مارشل لا لگتے ہیں کیونکہ فوج میں اکثریت پنجاب کی ہے اور وہ ان کے خلاف نہیں اٹھتے۔
سرائیکی علاقے میں لوگ کہتے ہیں کہ جب رائےونڈ (شریف برادران کی رہائش گاہ) کی ایک سڑک پر دس دس ارب روپے خرچ ہوں گے تو دوسرے علاقوں کا کیا بنے گا؟۔ پنجاب کی آبادی دس کروڑ ہوگئی ہے اور انتظامی طور پر ممکن ہی نہیں کہ ایک انسپیکٹر جنرل پولیس اور چیف سیکریٹری عوام کو سہولت دے سکیں۔
سرائیکی صوبہ زندہ باد
Karachi should also be declared as a Province, based on its population and ethnicity of the majority. It is not a bad idea to make provinces, in-fact it will make it easier to manage densely populated areas. Further people will be better aware of their electoral candidate, and there will be better check and balance.
PS: Please also start a thread on 2 weekly holidays as it’s a growing concern these days. Businessmen want 6 working days, whereas salaried class is extremely happy to hear about 2 holidays. It would be good if you can ignite a discussion of pros and cons of this proposal.
دی ابزرور صاحب
ہم نے چار سال پہلے دو چھٹیوں پر لکھا تھا جو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.mypakistan.com/?p=549
مگر آپ کی بات درست ہے۔ ہم اس پر ایک دفعہ پھر لکھیںگے اور آپ کی رائے کیمطابق فوائد و نقسانات کیساتھ۔ پچھلی دفعہ تو ہم نے غریب ملک ہونے کے ناطے دو چھٹیوں کے نقصانات ہی گنوائے تھے۔
Leave A Reply