حامد میر پر پابندی اٹھائے جانے کے بعد ان کے پہلے پروگرام میں مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین نے کہا اگر حکومتی پارٹیوں نے 58[2]- بی کی ترمیم آئین سے ختم کرنے کی کوشش کی تو وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ اب پتہ نہیں یہ ان کا ذاتی بیان تھا یا پارٹی بیان۔ لیکن اس کے فوراً بعد پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت کا بیان آگیا۔ انہوں نے کہا اگر 58[2]- بی کو چھیڑا گیا تو ملک میں بحران پیدا ہوجائے گا۔ اب جس پارٹی کے سربراہان کی رائے 180 درجے مختلف ہو اس پارٹی کا اللہ ہی حافظ ہے۔

جب ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973 کا آئین پارلیمنٹ سے پاس کروایا تو وہ پارلیمانی نظام تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیا نے 52- بی کی ترمیم سے اسے صدارتی نظام بنا دیا۔ بعد میں نواز شریف نے 58[2]- بی ختم کرکے اسے دوبارہ پارلیمانی بنا دیا۔ جب جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا تو مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کے خودغرض سیاستدانوں کی وجہ سے جنرل مشرف نے 58[2]- بی بحال کرکے اپنے پیش رو جنرل ضیا کا صدارتی نظام بحال کردیا۔

اب ایک دفعہ پھر نواز شریف نے 58[2] – بی ختم کرنے کی بات کی ہے۔ اس دفعہ پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ ن کیساتھ ہے۔ حیرانی تو مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل کے بیان پر ہوئی جنہوں نے اپنے لیڈر جنرل مشرف کے ہی اخیتارات پر کلہاڑا چلانے والوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا۔ لیکن  ساتھ ہی چوہدری شجاعت نے الٹا بیان دے کر ایک بار پھر مسلم لیگ ق کی پوزیشن کو مبہم بنا دیا ہے۔

پی پی پی اس دفعہ ہر حال میں نواز شریف کا ساتھ دے گی کیونکہ وہی مرکز میں حکومت بنانے جارہی ہے۔ اب یہ آصف زرداری کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح 58[2] – بی  بھی ختم کرتےہیں اور صدر مشرف کسیاتھ ساتھ امریکہ کو بھی ناراض نہیں کرتے۔ یہ مسئلہ آسان ہوجائے گا اگر صدرمشرف اگلے چند ماہ میں صدارت سے استعفٰی دے کر گھر چلے جاتے ہیں جس کے امکانات اب بڑھتے جارہے ہیں۔ صدر مشرف سے چوہدریوں کی ایک ہفتے میں دو ملاقاتیں، امریکی سینیٹروں کے بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ صدرمشرف کوئی بہت بڑا قدم اٹھانے والے ہیں۔ اللہ کرے اس دفعہ ملک کی دو بہت بڑی پارٹیاں انقلابی اقدامات اٹھا کر 1973 کے آئین کا چہرہ درست کردیں اور اسے پھر سے پارلیمانی بنا دیں تاکہ جمہوری اداروں کے سروں پر اپنے ہی منتخب کردہ صدر کے خوف کی تلوار نہ لٹکتی رہے۔۔