جس رفتار سے دنیا ترقی کررہی ہے ایک وقت آنے والا ہے کہ حکومت کے سارے کارنامے فلمبند ہونے لگیں گے اور تب کوئی بھی معاہدہ یا بات چیت خفیہ رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ تب تک سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چھوٹ ہے کہ وہ جتنا مرضی جھوٹ بول لیں اور جتنا مرضی اپنی رعایا کو چکر دے لیں۔

ابھی چند سال قبل جب میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ غیرقانونی طور پر الٹا گیا تو وہ اپنے حواریوں سمیت جیل میں قید کردیے گیے۔ کسی نے انہیں پٹی پڑھائی کہ حکومت کےساتھ اگر ڈیل ہوجائے تو باہر چلے جائیں گے کیونکہ جیل میں سڑتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف جنرل مشرف کی حکومت کو بھی اس کے فائدے گنوائے گئے اور کہا گیا کہ جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی دے کو جو غلطی کی تھی اب اس سے بچنے کا آسان طریقہ دریافت ہوچکا ہے یعنی میاں صاحب کو جلاوطن کردیا جائے۔

پہلے تو میاں صاحب کی حکومت گرتے ہی ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑا اور پھر انہوں نے ہی میاں صاحب کو راستے سے ہٹانے کیلیے ان کی جلاوطنی کا ڈرامہ رچایا۔ جنرل صاحب نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ صرف میاں شہباز شریف جلاوطنی پر راضی نہیں تھے۔ میاں برادران کے ابا جی کافی دور اندیش قسم کے بزرگ تھے انہوں نے بھی جلاوطنی قبول کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس طرح سعودی عرب کے حکمرانوں کی وساطت سے میاں نواز شریف فیملی اور جنرل مشرف کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا اور میاں صاحب نے اپنے خاندان کے افراد کیساتھ سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرلی۔ 

میاں برادران پہلے تو کچھ عرصہ مکمل خاموش رہے پھر حالات نے کروٹ بدلی اور سیاست میں پھر داخل ہوگئے۔  اس دوران میاں شہباز نے ایک دفعہ پاکستان آنے کی بھی کوشش کی مگر انہیں اسی طیارے پر واپس بھیج دیا گیا۔ میاں صاحب کی جلاوطنی پر نہ عوام نے برا منایا اور نہ ہی ان کی پارٹی ميں ااتنی سکت باقی رہی کہ وہ بھرپور احتجاج کرسکے۔۔

 پھر میاں برادران نے ایک پرانے نعرے “لچی اے لفنگی اے، گنجے نالوں چنگی اے” کی خجالت سے بچنے کیلیے اپنے سر پر نقلی بال لگوا لیے۔   

سعودی عرب کی گھٹن میں وہ زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور غیروں کی آزاد فضا میں سانس لینے کیلیے اپنے پیش روؤں کی طرح وہ بھی برطانیہ منقتل ہوگئے۔ برطانیہ متتقل ہوتے ہی میاں برادران کے اوسان بحال ہوئے اور انہوں نے سیاست میں دوبارہ حصہ لینا شروع کردیا۔ میاں شہاز شریف ابھی تک اپنی زبان بند رکھے ہوئے ہیں اور وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے رہے مگر میاں نواز شریف نے میڈیا سے بات چیت بھی شروع کررکھی ہے اورسیاسی بیانات بھی جاری کررہے ہیں۔

عرصے بعد میاں نواز شریف نے کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا ہے۔ یہ اتفاق سمجھیں کہ پچھلے ہفتے جیو نے بینظیر کا انٹرویو نشر کیا اور اس ہفتے آری دیجیٹل نے میاں نواز شریف کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کردیا۔

اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میاں نواز شریف نے جو باتیں اپنے انٹرویو میں کہی ہیں ان پر اظہار خیال کرنے اور پڑھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی رہے۔

باتیں تو میاں نواز شریف نے بہت کی ہیں مگر سب سے اہم بات جس سے وہ انکاری ہیں وہ ہے ان کی اور جنرل مشرف کی حکومت کے درمیان ڈیل۔ میاں صاحب نے اب سرے سے ہی انکار کردیا ہے کہ ان کی جنرل مشرف کی حکومت کیساتھ کوئی ڈیل ہوئی تھی اور سارا مدعا سعودی حکومت پر ڈال دیا ہے۔ کہتے ہیں اگر سعودی حکومت کی جنرل مشرف کیساتھ کوئی ڈيل ہوئی ہے تو اس کا انہیں معلوم نہیں لیکن ان کی جنرل مشرف کیساتھ کسی قسم کی کوئی زبانی یا تحریر ڈیل نہیں ہوئی۔ حالانکہ حکومتی حلقے جنرل مشرف سمیت ابھی تک یہی کہتے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ایک معاہدے کے تحت خود جلاوطن ہوئے تھے۔

حالات و واقعات تو یہی بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور جنرل مشرف کی آپس میں ڈیل ہوئی تھی اور اسی ڈیل کی بنا پر جنرل مشرف نے میاں صاحب کو جلاوطن کیا۔ اب میاں صاحب اس ڈیل سے انکاری ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ عوام کےسامنے اپنی بزدلی ثابت نہیں کرنی چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ میاں صاحب نے خود غرضی دکھائی اور انہوں نے عوام کی خاطر جیل میں چند سال رہنے کی بجائے جلاوطن ہونا بہتر جانا تاکہ جیل کی گرمی سے بچ سکیں۔

یہ معاہدہ ایسا ہے کہ جس کو منظر عام پر لاکر جھوٹ اور سچ کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس سچ جھوٹ کو ثابت کرنے کیلیے نہ سعودی حکومت اپنی زبان کھول رہی ہے اور نہ ہی حکومت اس معاہدے کی کاپی عوام کو دکھا رہی ہے۔ ہوسکتا ہے معاہدے میں یہ بھی شامل ہو کہ کوئی بھی فریق اس کی کاپی پبلک کو نہیں دکھائے گا۔ یہ ہونہیں سکتا کہ میاں صاحب بغیر کسی معاہدے کے جلاوطن ہوئے ہوں کیونکہ جنرل صاحب اور ان کے مشیر اتنے بیوقوف نہیں تھے کہ وہ زبانی معاہدہ کرتے۔ اگر تحریری معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو میاں شہباز شریف کبھی بھی ایرپورٹ سے واپس نے بھیجے جاتے۔ یہ معاہدہ ہی ہے جس نے میاں فیملی کے پاؤں جکڑ رکھے ہیں وگرنہ وہ کب کے واپس آنے کا بار بار ڈرامہ رچا رہے ہوتے۔

اس انٹرویو میں ہم نے ایک اور بات نوٹ کی۔ میاں صاحب جنرل مشرف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب جو بھی سوال پوچھتے تھے میاں صاحب انہیں گھما پھرا کر جنرل صاحب کی حکومت کی خرابیوں کی طرف لے جاتے تھے۔ جب میاں صاحب نے مشرف حکومت کے چیف جسٹس کو ہٹانے کی نانصافی کا ذکر کیا تو میاں صاحب شکر کریں کہ ڈاکٹر شاہد نے انہیں ان کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملے کی یاد دہانی کراکے شرمندہ نہیں کیا۔

کئی جگہوں پر میاں صاحب کو جواب دینے میںبھی کافی دقت ہوئی۔ مثلاً پی پی پی اور ایم ایم اے کیساتھ ایک ساتھ چلنے کے سوال پر میاں صاحب پر اعتماد نظر نہیں آۓ۔ اسی طرح میاں صاحب ہر بات پر قومی مفاد کر بیچ میں لانے لگے تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ یہ تو آپ کی جنرل مشرف کیساتھ ذاتی لڑائی ہے۔ اس کا جواب بھی میاں صاحب سے بن نہ پڑا۔

ہمیں تو سارے انٹرویو میں یہی لگا کہ میاں صاحب گھر سے یہی تیاری کرکے آۓ تھے کہ جنرل مشرف کی حکومت کو لتاڑنا ہے۔ حالانکہ میاں صاحب کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے منشور پر بات کرتے اور اپنے مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کرتے۔ وہ یہ بتاتے کہ ان کی حکومت کس طرح جنرل مشرف کی حکومت سے مختلف ہوگی اور وہ کس طرح اپنی پچھلی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سیاستدان اپنے مخالفین کی برائیوں کو گنوا گنوا کر اپنی پالیسیوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا تیر مار لیا۔ حقیقت میں وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش ہونے کا ایک اہم موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہی کچھ میاں صاحب نے اپنے ساتھ اس انٹرویو میں کیا۔

میاں صاحب نے ان ساتھیوں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے جو انہیں اکیلا چھوڑ کر فوجی حکومت کیساتھ جا ملے۔ انہوں نے تو یہی کہا کہ وہ کبھی بھی انہیں دوبارہ واپس نہیں لیں گے۔ مگر یہ تو سیاست کا کھیل ہے اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کسی روز میاں صاحب کو ان لوگوں کیساتھ اسی طرح دوبارہ چلنا پڑے جس طرح اب وہ بینظیر کیساتھ چل رہے ہیں۔

اگر میاں صاحب کا فوج کیخلاف اور اپنے غدار ساتھیوں کیساتھ یہی رویہ رہا تو ہمارے خیال میں تو دوبارہ حکومت نہ حاصل کرسکیں۔ کیونکہ فوج اور جاگیردار سیاستدانوں کی مدد کے بغیر حکومت حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دریا کو الٹا چلانا۔ یہ دریا تبھی الٹا چل سکتا ہے جب میاں صاحب عوام سے رابطہ کریں گے اور ان کے دکھوں کا علاج انہیں بتائیں گے۔ ابھی تک کوئی بھی جماعت اس راہ پر چلتی نظر نہیں آرہی۔ سب کی نظروں میں عوام ایک تھرڈ کلاس جنس ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ فوج اور ان کے غیرملکی آقا ہیں۔