پچھلے چند روز سے ہم طویل بحثوں کے مزے لے رہے ہیں۔ ان میں حصہ لینے والے شروع میں دوچار لوگ ہی تھے مگر چند لوگوں کے مزید شامل ہوجانے سے بحث میں جان پڑ گئ ہے۔
اردو سیارہ سمیت ہمارے اکثر بلاگرز نے اپنے اپنے بلاگز پر اپنے پڑھنے والوں اور پھر بحث میں حصہ لینے والے اصحاب کو بار بار یہی تلقین کی ہے کہ بحث کو شخصی تنقید سے پاک رکھیے اور لغو زبان استعمال مت کیجئے۔ ہمارے خیال میں یہی دوباتیں تعمیری بحث کی جان ہوتی ہیں۔
کہتے ہیں عام قسم کے لوگ شخصیات پر بحث کرتےہیں، درمیانے ذہن والے لوگ واقعات پر بحث کرتے ہیں اور ذہین لوگ خیالات پر بحث کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ابھی تک یہی دیکھا اور سیکھا ہے کہ اگر خیالات پر بحث کی جائے تو یہ تعمیری ہوتی ہے اور اس سے قاری زیادہ سیکھتا ہے۔ دوسری طرف جب ہم دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھال کر ایک عام آدمی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں وہیں پر اس کیچڑ سے ہم خود بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ مثلاً آپ نے کسی کو جھوٹا فریبی مکار غدار یا غاصب کہا تو وہ آپ پر جواب میں پھول نچھاور نہیں کرے گا بشرطیکہ وہ سلجھا ہوا آدمی ہو اور اس نے اپنی توجہ خیالات پر ہی مرکوز رکھی ہو۔
اگر آپ کے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کی ایسی کی تیسی کردیں۔ بلکہ راشد صاحب کے بقول اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیں۔ یہ بات یاد رہے کہ ہم کوئی بھی تبصرہ اپنی سائٹ سے حذف نہیں کررہے تاکہ پڑھنے والے کو آپ کے برے الفاظ کے استعمال سے آپ کے ذہنی معیار سے آگاہی ہوسکے اور شاید آپ کو بھی ان گندے فقروں کے استعمال پر کبھی ندامت ہو۔ ہاں جب کبھی کسی نے ننگی گالی دی ہو تو وہ ہم ہٹا دیتے ہیں۔
ہم اپنی بات لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کہنا تھا وہ کہ دیا اسلیے بار بار بحث میں مخل نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار جب بحث شخصیات پر تنقید کی طرف بڑھنے لگے تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قارئین کو اس سے پرہیز کی یاد دہانی کرا دیں۔ ہم اس آدمی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوتے ہیں جو شخصی تنقید کو برداشت کرتا ہے اور اس کے جواب میں صرف اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شخصی تنقید کو برداشت کرنا آسان کام نہیں ہے بلکہ اسکیلے بہت بڑا دل چاہیے۔
مباحثے میں شریک اچھے شرکا وہی مانے جائیں گے جو صرف اپنے پوائنٹ کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور دوسرے کی اگلی پچھلی نسلوں پر لعن طعن نہیں کریں گے۔ یقین مانیں آپ کی یہی خوبی آپ کی شخصیت کو نکھا رے گی اور آئندہ دوسرے لوگوں سے الجھنے کی تکلیف سے بھی بچائے گی۔
آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپس میں اختلافات کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے۔ اگر نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ ایک تو غیبت اور دوسری شخصی تنقید یا مذاق ہے۔ آپ اپنے جاننے والے یا رشتے دار کی غیبت کرکے دیکھ لیں جونہی وہ بات اس تک پہنچے گی آپ کی لڑائی شروع ہوجائےگی اور آپ ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی جائیں گے۔ اسی طرح آپ نے کسی کی شخصیت کا اس کے سامنے مذاق کیا نہیں اور آپ کی شامت آئی نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایک اصول پر کارآمد رہ کر کئ مواقع پر اپنی عزت بچائی ہے۔ وہ اصول ہے منہ پھٹ کو منہ نہ لگانا۔ آپ آزما کر دیکھ لیں آپ کسی منہ پھٹ اور بےشرم کیساتھ مذاق کرکے دیکھ لیں وہ آپ کو بھرے مجمعے میں ذلیل نہ کردے تو ہم جھوٹے۔
ایک دوسرے پر جانبداری اور میں نہ مانوں والے الزامات بھی آپ کے دلائل کو کمزور کردیتے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ بحث کرنے والا آپ سے متفق نہیں ہے تو اسے کچھ نہ کہیے بلکہ فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیجیے۔ یہی آپ کی بردباری اور ذہانت کی کنجی ہوگی۔
ایک اور بات جو سب سے اہم ہے وہ ہے کسی انجان آدمی کی بحث کے دوران جلا کٹا جملہ کہ کر آپ کو مشتعل کرنے کی کوشش۔ اس کا بہتر حل یہی ہے کہ اس طرح کی کوشش کو ناکام کرنے کیلیے اس کو درگزر کیجئے۔ لیکن اس کیلیے بھی شرط یہ ہے کہ آپ بہت ٹھنڈے مزاج کے واقع ہوئے ہوں اور آپ کے مزاج میں چڑچڑا پن نہ ہو۔ ہمیں یاد ہے ہمارے محلے میں دو بوڑھوں کی چھیڑ بنی ہوئی تھی۔ ایک بوڑھی عورت اپنی عمر سے بڑھ کر چمکیلا لباس زیب تن کیے رکھتی تھی۔ لوگ جب اسے مائی کبوتری کہ کر پکارتے تو وہ بہت دیر تک چھیڑنے والوں کو لعن طعن کرتی رہتی جب تک تھک نہ جاتی۔ وہ جونہی چپ ہوتی کہیں اور سے آواز آجاتی “مائی کبوتری” اور وہ پھر گالی گلوچ شروع کردیتی۔ اسی طرح ایک بوڑھا جو اپنی “کھوتی” پر جانوروں کا چارہ بازار سے لایا کرتا تھا لوگ اس سے جونہی پوچھتے “بابا کھوتی سوئی آ” یعنی تمہاری گدھی نے بچہ جنا کہ نہیں تو وہ کھوتی کو ادھر ہی چھوڑ کر لڑکوں کو مارنے کیلیے ان کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا۔ اس دوران دوسرے شرارتی لڑکے اس کی کھوتی پر سواری شروع کردیتے۔ ان مثالوں سے ہميں یہی ثابت کرنا ہے کہ چھیڑنے والے کو پہچانیے اور اس کی باتوں ميں آکر نہ اپنا وقت ضائع کیجے اور نہ دماغ۔
ایک اور اصول جس نے ہمیں مصیبتوں سے بچائے رکھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو کوئی تنگ کررہا ہے اور آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ اس سے الجھ پڑیں۔ اس موقع پر کوشش کیجیے کہ ایک ڈرپوک کی طرح اس سے دامن بچا کر چلے جایۓ۔ آپ دیکھیے گا کہ کبھی نہ کبھی وہ کسی اور کے ساتھ الجھے گا اور دوسرا شخص اس کو سبق سکھا کر آپ کی حسرت بھی پوری کردے گا۔
اس ساری انصحیتوں سے بھری بور گفتگو کا لب لباب یہی ہے کہ براہ مہربانی ایک پڑھا لکھا، سلجھا ہوا اور ذہین آدمی بن کر بحث میں حصہ لیجئے اور فضول باتوں سے اپنے دل کو جلانے سے بچئے۔
اگر آپ کے ذہن میں کوئی نصیحت ہو تو ہمیں کیجیے اس طرح ہوسکتا ہے ہم بھی اپنی ان غلطیوں سے آگاہ ہوسکیں جو اب تک ہم سے پوشیدہ ہیں۔
26 users commented in " کچھ ضابطے کچھ تقاضے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت خوب ۔
اچھی تحرير کی ايک خوبی يہ بھی ہے اور بہت سی خوبيوں کے علا وہ کے آپ کو يہ محسُوس ہو کہ
ميں نے يہ جانا کہ گويا يہ بھی ميرے دل ميں ہے
آج کا آپ کا يہ بلاگ کُچھ ايسا دل کو لگا ہے کہ ايسے لگتا ہے گويا دل کو ٹھنڈ پڑ گئ ہو ورنہ اصل بات يہ ہے کہ پچھلے دنوں کُچھ ايسا محسُو س ہو رہا تھا ہم سب کہيں آگ کے گولے پر بيٹھے ہوں اورايک دُوسرے پر ايسے تاک تاک کر نشانے لگاۓ جا رہے تھے اور کہيں سے بھي يہ نہيں محسُوس ہو رہا تھا کہ ہم لوگ ايک مُلک کے لوگ اور ايک ہي مزہب سے تعلُق رکھتے ہيں بلکہ باکُل آمنے سامنے لڑتے ہُوۓ دُشمن دکھائ دے رہے تھے اس کي وجہ بھي شايد يہ ہے کہ ہم لوگوں کی فطرت ہی کُچھ اتنی زيادہ جزباتی ہے کہ ہم مُشتعل ہو جاتے ہيں ليکن يہ بھی شايد ہماری جزباتی فطرت ہی ہے کہ ہم جس کے ساتھ بھی ہوتے ہيں دل سے ہوتے ہيں اور ايسے ميں اپنی مُحبّتوں کی انتہا کر ديتے ہيں اور آپ سب بھی يہ تو جانتے ہوں گے کہ کہا جاتا ہے نا کہ „مُحبّت اور جنگ ميں سب کُچھ جائز ہوتا ہے„
سو شايد يہ معاملہ بھی مُحبّت اور جنگ جيسا ہی رہا ہو ايسے ميں جو کُچھ ہمارے محترم ماہرين نے لکھا پکّی بات ہے وہ اُن حقائق کو جانتے ہوں گے جبھی ہی اپنی ماہرانہ آرا دی ہے ليکن جس طرح ہر کام کا ايک طريقہ ہوتا ہے وہی روا رکھا جاۓ تو بہتر ہوتا ہے جيسے ميں ايک گھريلو عورت يعنی خاتُونِ خانہ ہُوں تو ويسی ہی مثال دُوں گی کہ اگر کھانے پکانے کے طريقے ميں کوئ تبديلی کی جاۓ تو نتائج کے ذمّے دار بھی ہم ہی ہوں گے نا يعني کُچھ سے کُچھ ہو جاۓ گاسو ايسے ميں ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی کيا جاۓ ميانہ روی اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نا چُھوٹنے پاۓ اب ميں اگر پنجابی کی ايک مثال دُوں تو اُميد ہے ميرے بہن بھائيوں کو اعتراض نہيں ہوگا کہ
„شرم دے مارے اندر وڑی تے لوکی سمجھے ساتھوں ڈري„
يعنی دُوسرے لفظوں ميں يہ بھی کہہ سکتے ہيں کہ شرافت اور بُزدلی ميں بس تھوڑا سا فرق ہوتا ہے باريک بال برابريہی آپ کے کہنے کا وہ جواب بھی ہے کہ ميرے ذہن ميں يہی ايک نصيحت ہے کيچڑ سے بچ کر چليں گے تو چھينٹے اُڑنے کا کوئ خوف نہيں ہوگا ويسے آپ خود عقل مند ہيں ميرا مطلب ميرا پاکستان آپ سے ہے جو اس بلاگ کے رائيٹر ہيں اُمّيد ہے کسی کی دلآزاری نہيں ہُوئ ہوگي، شُکريہ
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
اجمل صاحب
بہت خوب سے آگے بھی کچھ لکھ دیتے تو شاید ہم سب کا بھلا ھوجاتا۔
شاھدہ صاحبہ
آپ کی باتیںسبق آموز ہیںاور ہم آپ سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ امید ہے ہمارے قارئین اسی طرحہماری رہنمائی کرتے رہیںگے۔
آیئے اس موضوع پر بھی اسی طرح بحث کا آغاز کریںجس طرحہم نے اس سے پہلے کی چند تحریروں سے کیا تھا۔
شاہدہ صاحبہ کے بقول کیا ہم میںبحیثیت پاکستانی برداشت ختم ہوتی جارہی ہے؟ کیا ہم پہلے سے زیادہ خود غرض نہیںہوتے جارہے۔ کیا ہم دوسرے لوگوںکے دل جیتنے کے طریقے بھولتے جارہے ہیں؟ کیا ہم کبھی بھی ساتھ ملکر نہیںچل سکیںگے؟ کیاہم ایک دوسرے کے دکھ درد میںشریک ہونے کی روایت ختم کردیںگے؟ کیا ہم مزید ٹکڑوں میںبٹتے جائیںگے؟
افضل صاحب جو آپ نے لکھا وہ بات میں شروع دن سے کہ رہی تھی کے آپ لوگ اختلاف برائے اختلاف رکھتے ہوئے اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت کو کھلم کھلا دہشت گرد کہ رہے ہیں اور اس پر آپ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ لوگ اس کو خاموشی سے برداشت کریں،جبکہ اپنے آپ پر زرا سا چھینٹا بھی آپ کو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہو،
سکھوں نے پنجاب کے لوگوں پر جو ظلم کیئے ان کو بھولنے میں آپکو 50 سال کا عرصہ لگا اور ہم سے آپ یہ امید کرتے ہیں کہ بیک جنبش قلم سب ٹھیک ہو جائے ،افضل صاحب ان زخموں کو بھرنے میں عرصہ لگے گا اور اگر آپ لوگوں کا ہمارے ساتھ یہی رویہ رہا تو یہ عرصہ کتنا طویل ہو جائے کہا نہیں جاسکتا،حقائق کو اگر آپ کیچڑ اچھالنا کہتے ہیں تو یہ کیچڑ جواب در آں کے طور پر ہی اچھلی ہے،ہم کافی عرصہ سے آپ لوگوں کی خامہ فرسائیوں کو برداشت کر رہے تھے،
ایم کیو ایم کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عوام کہ کرنے دیا جائے بزریعہ ووٹ اگر وہ کسی قابل نہیں ہیں تو با شعور عوام انہیں خود مسترد کر دے گی،سب سے افسوس ناک بات یہ رہی ہے کہ آپ میں سے کسی نے ہمارے اور نعمان کے سوالوں کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی،اور نہ ہی اردو بولنے والوں پر ہونے والے مظالم کی مزمت کی،
اگر الزام تراشیاں آپ کریں تو جائز اور ہم کریں تو نا جائز اس دوہرے میعار پر بھی غور کیجیئے گا ،
بہر حال آپ کا بہت بہت شکریہ کے آپ نے اپنے بلاگ پر ہمیں لکھنے دیا اس لحاظ سے آپ اجمل صاحب سے بہتر انسان ثابت ہوئے،
اور راشد صاحب سے بھی،
باقی آپ کا پرنالہ اب بھی وہین گر رہا ہے جہاں پہلے تھا کوئی بات نہیں وقت ہر سچ اور جھوٹ کو الگ کر دیتا ہے بہت سی سچائیاں تو سامنے آہی گئی ہیں باقی جو ہیں وہ بھی کبھی نہ کبھی سامنے آہی جائیں گی، وسلام،
سب سے پہلے تو بالکل بروقت اور بالکل درست بلاگ اور میں پوری طرح متفق ہوں اور اس بات کا شکر گزار بھی کے ہمیں آپ نے اپنی بات کہنے کا فورم فراہم کیا۔
طویل بحثوں کے مزے شاید میں نے ہی سب سے زیادہ لوٹے ہیں مگر میں صرف اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہتا تھا اس میں میری کوشش رہی کے میں کسی کی ذات کو نشانہ نہ بناؤ لیکن اگر غیر ارادی طور پر ایسا ہوا تو اسکے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
شاہدہ اکرم صاحبہ میں آپ کی باتوں سے نناوے فیصد متفق ہوں 🙂 ایک بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کے دراصل ہم تمام لوگ اپنی قوم (پاکستانی) کی پہلی نسل ہیں جس نے بات چیت کا راستہ اپنایا ہے۔۔ یقین کریں اس سے پہلے پاکستانی ان چیزوں سے نا آشنا رہے ہیں۔۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوتی ہے اور دنیا میں ہر جگہ ہوتی ہے ۔۔ موضوع کے حساب سے گرمی سردی ہونا بھی گفتگو میں معمول کی بات ہے اور یہ مہذب دنیا میں بھی ہوتا ہے مگر میں پھر اپنی بات کا اعادہ کروں گا کے تہذیب کے ساتھ اگر ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہیں تو بحث سے پڑھنے والوں کو واقعی آگاہی ہوتی ہے اور اس سے خوف نا کھائیں وقت کے ساتھ ساتھ ہم لوگ یہ چیز سکیھ لیں گے کہ ابھی تو شروعات ہیں غلطیاں تو ہونگی۔۔ امید ہے آپ انے خیالات سے مستفید کرتی رہیں گی۔۔
برادران و سسٹران
السلا م علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ کی محفل میں پہلی دفعہ شرکت کرنے پر آپ سب کی طرف سے بقلم خود کو خوش آمدید کہنے پر آپ سب کا پیشگی شکریہ !
بہت دنوں سے یہ سائٹ زیر مطالعہ ہے اور میں کافی حبس محسوس کر رہا تھا ۔ اس لئے سوچا کہ ذرا پانی میں اتر کر دیکھا جائے کہ تہہ میں کتنا طوفان ہے۔
ہاں تو جناب ! بات یہ ہے کہ پاکستان میں اردو بولنے والے ہوں یا پنجابی، پشتو بولنے والے ہوں یا بلوچی ، سندھی بولنے والے ہوں یا سرائیکی یہ سب اول تاآخر پاکستانی ہیں اور بھائی ہیں ۔ پاکستانی ہونے کے ناطے بھی اور مسلمان ہونے کے ناطے سے بھی ۔ ہم سب کے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ ہی ایک دوسرے کو تکلیف دیتا ہے اور نہ ہی گالی دیتا ہے۔“ امید کرتا ہوں کہ برادران و سسٹران سب بشمول بقلم خود ہم اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی ہونے کاثبوت دیں گے ۔
برادران و سسٹران ! فی الحال آج کے لئے اتنا ہی ۔ بشرط زندگی انشا اللہ ، باقی پھر ! بقلم خود
جناب بہت خوب بہت خوب ہی ہوتا ہے ۔ آپ کی مندرجہ بالا تحریر ایک اچھی راہ مقرر کرتی ہے ۔ اللہ کرے کہ آئیندہ سب لکھنے اور تبصرہ کرنے والے اس پر عمل کریں ۔ میں اُس وقت بہت جلدی میں تھا میرے مہمان آ گئے تھے تو میں نے دو مناسب ترین لفظوں پر اکتفا کیا ۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے اصول کو توڑتے ہوئے مہر افشاں صاحبہ کو مخاطب کیا اور ان کی خامیوں کی نشان دہی کی ۔ مجھے لکھ چکنے کے بعد کافی پشیمانی ہوئی ۔ اللہ مجھے ایسے واقعات سے بچائے ۔
آپ نے ماہیّتی تجزیہ تو اچھا کیا ہے مگر مقداری تجزیہ کو ضروری نہیں سمجھا جبکہ سائینس میں دونوں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں ۔ سو آپ کا وقت بچانے کیلئے مقداری تجزیہ میں کر دیتا ہوں ۔
ایم کیو ایم کے متعلق
مہر افشاں ۔ 29
راشد کامران ۔ 17
نعمان ۔ 6
میرا پاکستان ۔ 5
اجمل ۔ 4
محمد عمران ۔ 2
ایک نظریاتی مہاجر ۔ 2
بدتمیز لکھنے والا ۔ 1
جہانزیب ۔ 1
ہمت علی ۔ 1
راشد وڑائچ ۔ 1
بقلم خود ۔ 1
نواز شریف کے متعلق
مہر افشاں ۔ 7
راشد کامران ۔ 5
فیصل ۔ 2
شاہدہ اکرم ۔ 2
اجمل ۔ 2
درد آشنا ۔ 1
اظہرالحق ۔ 1
ساجد اقبال ۔ 1
جی ہاں ہم لوگوں میں صبر بالکل ختم ہو چکا ہے ، اصل میں ہم حقائق سے چشم پوشی کے عادی ہو چکے ہیں ، میں اگر اپنی آنکھوں دیکھی اور آپ بیتی بیان کروں گا تو لوگ نہیں مانیں گے ، جب تک ان پر خود بیت نہ جائے ، ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ، فلپائن میں مارکوس ایک بڑا ڈکٹیٹر تھا ، اسکے بعد بہت سارے لوگوں نے فلپائین پر حکومت کی ، مگر فلپائن کے لوگ آج بھی مارکوس کے زمانے کو یاد کرتے ہیں کہ اس وقت زیادہ امن تھا ، مگر دوسری جانب کچھ لوگ اس بات پر بھی دلائل رکھتے ہیں کہ مارکوس بہت ظالم تھا ، یعنی ایک تصویر کے دو رُخ ہو سکتے ہیں ، آپ اگر یہ سمجھیں کہ آپ دودھ کے دھلے ہیں اور آپکا کوئی مخالف نہیں تو آپکی سوچ غلط ہے ، مخالفت ہر بات کی ہوتی ہے اچھائی کی بھی اور برائی کی بھی ۔ ۔ ۔ مگر ہم اگر یہ سوچ لیں کہ ہم ہی عقل کُل ہیں تو پھر اسکا کوئی علاج نہیں ۔ ۔ ۔
دوسری بات جو ہمارے ہاں خاص طور پر آ چکی ہے وہ ہے شخصیت پرستی ، ہم اپنے رہنما کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سننا چاہتے ، بجائے یہ کہ ہم اس مخالفت کا جواب اسی رہنما کی زندگی سے دیں ، ہم اسے مخالفت برائے مخالفت بنا دیتے ہیں ۔ ۔ حتہ کہ بعض دفعہ ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہو جاتے ہیں ، ذرا دیکھیں تو سہی ہم خود کیا ہیں ، پیپلز پارٹی بے نظیر ہے ، مسلم لیگ (ن) نواز شریف ہے اور قاف لیگ والے مشرف کے دیوانے ہیں ، ایم کیو ایم الطاف حسین پر چلتی ہے ایم ایم اے قاضی اور فضل الرحمان پر ہے ۔ ۔ ۔ یہ لوگ سیاسی ستارے ہیں جو کسی بھی نئے چہرے کو آگے نہیں آنے دیتے ۔ ۔ ۔ کیونکہ ڈر ہوتا ہے کہ ہمارے پول نہ کھل جائیں ۔ ۔ ہم عوام انہیں پر اعتماد کر کے انکے لئیے لڑتے ہیں ، مرتے ہیں انہیں ووٹ دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ انہیں سر پر چڑھاتے ہیں ۔ ۔ اور وہ رہنما سڑکوں سے مخمل کے قالینوں پر آ جاتے ہیں اور ہم آپس میں الجھے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔
تیسری بات جو بحث میں فساد کا بحث بنتی ہے ، وہ ہے نظریہ ، ہم میں سے ہر کوئی اپنا اپنا نظریہ رکھتا ہے ، اور اسے ہی سچ مانتا ہے ، جسمانی تبدیلی شاید ڈنڈے کے زور سے لائی جا سکے مگر ذہنی تبدیلی کے لئے بہت کچھ چاہیے ہوتا ہے ، جدید دنیا سنٹالوجی سے لیکر برین اسٹارمنگ جیسے طریقے استعمال کرتی ہے ذہنی تبدیلی کے ، ہم تھنک ٹینک تو کیا ، تھنک کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے ، کیونکہ ہم خود کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اپنے نظریہ کو باطل سمجھنا ہم سے ہو نہیں سکتا ۔۔ ۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہمیں ہمارا مشاہدہ کچھ اور بتاتا ہے ، مثلاً ، ہم یہ کہتے ہیں کہ میری سوچ کو ماننے والے چند افراد ہیں جبکہ مخالف کی سوچ کو ماننے والے لاکھوں ۔ ۔ تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ میری سوچ غلط ہے یا لاکھوں کی سوچ ہی صحیح ہے ، یاد رکھیے تبدیلی ایک سوچ سے ابھرتی ہے ، اور تبدیل کرنے والے ہمشیہ ہی کم تعداد میں ہوتے ہیں ، زیادہ تعداد کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ ہی حق ہے ، اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ جمہوریت وہ نظام ہے جہاں انسانوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔
طویل تبصرے پر معذرت ، مگر میں جو سوچ رکھتا ہوں اسے بیان کرنا تھا ، میں ذہنی تبدیلی کے حق میں ہوں ، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ بعض دفعہ جو دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ صرف ایک الوژن ہو سکتا ہے ، ہم واقعیات کو مشاہدہ کہ کہ شاید غلطی کرتے ہیں ، ہمیں ہمیشہ محرکات کو دیکھنا چاہیے کیونکہ
زمانہ کرتا ہے اسکی نمو برسوں
حادثہ کبھی اک پل میں نہیں ہوتا
اظہر صاحب کیا آپ نہیں سمجھتے کے ذہنی تبدیلی کے لیے بات چیت بھی ضروری ہوتی ہے؟ کبھی کبھی تلخ پیرائے میں بھی ہوتی ہے تھنک ٹینکس بھی اپنی رپورٹ بنانے سے پہلے ریسرچ کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں گرما گرمی بھی ہوتی ہے۔۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کے یہ جو کچھ بلاگز پر ہورہا ہے یہ بھی ایک تبدیلی کا آغاز ہے کہ چلو ہم نے ایک دوسرے سے بات تو کرنی شروع کی ؟ کم از کم اتنا تو برداشت کرنا شروع کیا کیونکہ اب سے پہلے تک تو ہم دوسرے کی بات سننے کے بھی روادار نہیں تھے ؟
راشد میرا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ ہمیں بحث کرنی چاہیے ۔ ۔ ۔ اور بات کہنی بھی چاہیے اور سننی بھی چاہیے ۔ ۔ ۔ مگر یہ بات غلط ہے کہ کر کسی کے بیچھے لٹھ لیکر پڑ جانا کہ آپ اے ٹیم میں کیوں بی میں کیوں نہیں یہ غلط ہے ۔ ۔ ۔ ۔
افضل آپ نے اچھے کلمات سے اس طویل بحث کا اختتام کردیا ، اللہ کرے سب کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے ۔
میں کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے نہ یہ مباحث بروقت پڑھ سکا اور نہ ہی کوئی تبصرہ کرسکا (ویسے مجھے کوئی افسوس بھی نہیں !ہا ہا ہا ہا) کیونکہ بحث کافی گرم ہوچکی تھی اور مجھے “گرم علاقے“ زیادہ پسند نہیں ۔
میں مہر افشاں صاحبہ سے گزارش کروں گا کہ وہ ذرا کم غصہ ہوں کیونکہ حق بات یہی ہے کہ اس سارے بحث میں سب سے زیادہ غصہ اور غصیلے تبصرے انہی کے ہیں ۔ یہ بحث شائد عبداللہ اور راشد کامران کے چند تبصروں سے چھڑ گئی تھی ، عبداللہ بچارا تو پیچھے رہ گیا لیکن مہر افشاں صاحبہ میدان میں اُتر گئی اور خوب جی کھول کر غصے بھرے تبصرے کئے جس پر وقتآ فوقتآ نعمان یعقوب پانی ڈالنے کی ناکام سی کوشش کرتے رہے ۔
میں سب سے اور خصوصآ مہرافشان صاحبہ سے درخواست گزار ہوں کہ وہ جذبات سے زیادہ کام نہ لیں اور کسی کے سوچ کے پرنالے کی جگہ تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرلیں ، بلکہ صرف یہ بتانے پر اکتفا کریں کہ بھیا آپ کے سوچ کا پرنالہ ٹھیک جگہ نہیں ۔ اس سے بحث نہ تو تلخ ہوگی اور نہ ہی ذاتیات کی حد تک جائے گی ۔ امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے اور آپ کو شائد ہونا بھی نہیں چاہیئے !
یہ کیا لکھ دیا –
عوام میں یہ چیز پیدا ہو گی تو لیڈران اور سیاستدانوں کاکیا ہوگا؟
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میرے والدین کراچی سے آکر آباد ھوئے اور میںنے بے ایڈ کرنے کے بعد کراچی میں ایک سکول میںپڑہانا شروع کردیا۔ میںنے زمانہ دیکہا ھے اور ھر قسم کی لڑکیوں اور عورتوں سے واسطھ رھا ھے۔ اسلئے میںروغانی صاحب کی بات کی تائید کرتی ھوں کھ مھر افشاں صاحبھ کو غصے کی بجائے ھوش سے کام لینا چاھئے۔
ویسے مجہے شک ھے کھ مھر افشاں عورت نھیںھے بلکھھ کوئی مرد عورت بن کے لکھتا ہے۔ کیونکہ عورت اتنی سخت دل نھیںھوسکتی اور وھ معاف منٹوں میںکردیتی ھے۔ اگر شومئ قسمت سے مھر افشاں عورت ھے تو پھر وہ بیوہ ہے کیونکہ ایسی عورت کاخاوند زیادہ تر زندہ نھیں رھ سکتا اور اگر زندہ ہے توپھر تو دوزخ میںرہ رہا ہے۔
بہن حوصلھ رکھو اور روغانی کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرو شاید تمہیںروشنی مل جائے۔
’تاريخ گواہ ہے ہر چيزکي ليکن تاريخ پڑھتا کون ہے؟‘
اے رضا
’جی بالکُل ،ليکن ہم لوگ تاريخ سے گواہی کيا مانگيں گے جب کہ کوئی اُس سے نا ہی کوئی سبق سيکھتا ہے اور نا ہی تاريخ کا لکھا پڑھنا پسند کرتا ہے۔‘
شاہدہ اکرم
بہت شکريہ شاہدہ اکرم صاحبہ! آپ نے نوٹ فرمايا ہو گا کہ نصابي کتب کي بجائے قدرت اللہ شہاب اورسردار شيرباز مزاري جيسے قابل اعتماد بزرگوں کے چشم ديد مشاہدات ايک مستند اور معتبر تاريخ پاکستان کي حيثيت رکھتے چلےآئے ہيں۔
اے رضا
رضا بھائ آپ اورہم يا ہمارے بچے تاريخ کوکل کس نام سے ياد کريں گے نہيں جانتي ليکن ميرے خيال ميں تو ہمارے بزُرگ بھی ايک تاريخ ہی ہوتے ہيں آباؤ اجداد سے ہی تو تاريخ بنتی ہے ہم جب لفظ ورثہ کا استعمال کرتے ہيں تو دھيان ميں شايد وراثت کے تعلُق جيسی کوئ بات رہتی ہے جبھی تو ورثے ميں ملی چيزوں کی اتنی حفاظت بھی کی جاتی ہے اور وہ اچھی بھی لگتی ہيں تو جس سے بھی جو اچھا لگے وہ تاريخ ہی ہو گی نا
ميں بہت زيادہ معزرت خواہ ہُوں کہ ايک دُوسری جگہ کا لکھا تبصرہ آپ کو بھيج ديا بی بی سی کے آپ کی آواز پر کۓ گۓ تبصرے کو آپ کے صفحے پر پوسٹ کر ديا کيونکہ اُسی صفحے پر لکھ کر کاپی پيسٹ کرتی ہُوں آپ کا صفحہ بھی اوپن کيا ہُوا تھا غلطی سے انجانے ميں وہاں پيسٹ کر ديا معافی چاہتی ہُوں اتنی فاش غلطی پر اُمّيد ہے قارئين بھی مُجھے اس غلطی پر معاف فرمائيں گے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ایک دوسرے کی حوصلے سے سنیں گے اور اپنا نقطہ نظر اچھے طریقے سے بیان کرنے کے بعد فیصلھ پڑہنے والوں پر چھوڑ دیں گے۔
یھ واقعی سچ ہے کہ غصہ عقل کر کھا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے نبی صلعم کا ارشاد ہے کہ جب تمہیںغصہ آئے اور تم اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔ یہ بھی فرمایا کہ غصے کے دوران پانی پی لیا کرو۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ غصے میںکئے ہوئے فیصلے پچھتاوے کا سبب بنتے ہیں۔ ہمیںاپنے ایک دوست کی عادت بہت اچھی لگتی ہے۔ جب بھی کوئی اس سے جھگڑتا ہے تو وہ خاموش رہتا ہے پھر ایک آدھ دن بعد وہ اس شخص سے ملاقات کرتا ہے اور بڑے تحمل سے اس کے گلے شکوے دور کرتا ہے اور اس وقت اگر وہ سنانا بھی چاہے تو مخاطب کو کھری کھری سناتا بھی ہے۔ مثال دینے کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم وقتی خفگی کو چند لمحوںکیلیے ٹال سکیںتو اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میںآسانی ہوتی ہے۔
سب سے پہلے ميں آپ سب کی شُکر گُزار ہُوں کہ آپ نے اپنی محفل ميں نا صرف پزيرائ کی بلکہ کسی ايک بات کو لے کر آج کا بلاگ لکھا جو حقيقت ميں ہم سب کے لۓ رہنُمائ ہے اجمل انکل(سب آپ کو انکل کہتے ہيں سو مُجھے بھی کہنا چاہيۓ تھا اُمّيد ہے ميری اس جسارت کا بُرا نہيں مانا ہو گا)محترم راشد صاحب،بقلم خود صاحب اور ميرا پاکستان يقينی آپ کا کوئ بہت اچھا نام بھی ہو گا بھائ ليکن آپ نے جو اپنا يہ نام رکھا ہے ميرا پاکستان يہ مُجھے کُچھ اس قدر پسند ہے کہ بتا نہيں سکتی ايک مِلّی نغمہ ہے نا
جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان
اور اس بات سے ہی يہ پتہ چلتا ہے کہ مُلک کے لۓ مُحبت کيا چيز ہے ٹھيک ہے اسی فورم پر ہم سب اپنے ہی مُلک کے لۓ کتنا کُچھ اناپ شناپ کہہ رہے ہوتے ہيں ليکن بالکُل اُسی طرح کہ اپنے بچے کو ہم بہت کُچھ کہہ ليتے ہيں پھر بھی ہے تو وہ اپنا ہی نا اُس کو سنوارنے کا کام بھی تو ہمارا ہی ہے اور پھر جس مزہب سے ہمارا تعلُق ہے اُس کا تو درس ہی يہ ہے
گالياں سُن کر دُعا دو
پا کے دُکھ آرام دو
تو اگر اب ہم يہ سب نہيں کرتے تو تلاش کريں کہيں کُچھ کم تو نہيں ہو گيا اور ايسے ميں ہميں زيادہ دُور نہيں جا نا پڑتا اپنے بہت قريب کی چيزوں پر دھيان دينا ہو گا اور شايد شروعات بھی وہيں سے ہو نگی آج پُوری دُنيا ميں ہم اپنے انہی اصُولوں کی وجہ سے وجہ ء تنا زعہ بن کر رہ گۓ ہيں جبکہ ديکھا جاۓ تو غُصّہ اور غلط روی ہر جگہ ہے ابھی آج کی خبر ہی ديکھ ليں امريکہ ميں ايک طالب علم نے33 بے گُناہ افراد کی جان لے لی يعنی غُصّہ يا frustrationانسان کو کہيں کا نہيں رکھتا اور يہ کسي بھي جگہ کسي کو بھي آکر کسی کام کا نہي رکھتا،اب آپ مُجھے ايک بات بتائيں
کيا ہم مُسلمان نہيں رہے؟يا کيا ہم اچھے مُسلمان نہيں رہے ؟
يا ہم اُس سبق کو بُھول گۓ جو ہميں دين فطرت کی طرف سے وديعت ہُوا ،مدينہ مُنوّرہ ميں رسُول پاک صلعم پر کُفّار نے اتنے پتھر برساۓ کہ اُن کی ايڑيو ں تک لہُو بہہ نکلا ليکن اُن کی زبان سے ايک بھی لفظ بد دُعا کا نہيں نکلا تو کيا ہم وہ سبق بُھول گۓ ہيں ،پکّی بات ہے نہيں ياد وہ سبق جو ہم نے اپنے تعليمی سالوں کی شروع کی کلاسوں ميں پڑھا تھا جبھی تو صبر و برداشت کی کمی واقع ہو گئ ہے جب کسی اپنے پيارے کی موت ہو جاتی ہے تو سب يہی کہتے ہيں کہ مرنے والے کے ساتھ کوئ مر نہيں سکتا اور صبر کرو گو يہ ايک بہت مُشکل کام ہے اور جس پر بيت رہی ہو اُس تکليف کو وہی جان سکتا ہے پھر بھی اس صفت کا استعمال کر کے ديکھيں بہت سکُون ہے برداشت کرنے ميں ،اور معاف کر دينے ميں بہت لزّت ہے ہر وقت کوئ نا کوئ بات ہر ايک کے لۓ دُکھ کا باعث ہوتی ہے ميری امّی کہا کرتی تھيں کہ اپنے دُکھ کی شدّت بہت زيادہ لگے تو اپنی گلی کے کونے سے شروع کرو اور اگر کوئ بتاۓ تو ہر ايک کا دُکھ سُنو واپسی پر تمہيں اہنا دُکھ سب سے کم لگے گا آزما کر ديکھيں بالکُل يہی تجربہ ہو گا کہ دُنيا دُکھوں اورآزمائشوں کا گھر ہے کامياب وہی ہے جو اس دُکھ کے سمندر کو کاميابی اور صبر سے پار کر گيا،اظہر صاحب کی بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ايک کے لۓ جو بات درُست ہے ہو سکتا ہے وہی بات دُوسرے کے نزديک غلط ہو اس کے لۓ اُس کے لۓ جو اُنہوں نے مارکوس کی مثال دی وہ سو فيصد درُست ہے ميں آج کی مصال بھی دُوں گی کہ آج عرقی عوام ميں سے کُچھ کے نزديک صدّام حُسين کے وقت ميں امن و امان کی صُورت حال اب کے مُقابلے ميں بہتر تھی اور کُچھ کے نزديک اب حالات بہتر ہيں يعنی آدھا گلاس خالی اور آدھا گلاس بھرا ہُوا ہونے والی بات ہے کہ دونوں صُورتوں ميں دونوں باتيں درُست ہيں اور اظہر صاحب کی ايک اور بات دل کو بھلی لگی کہ اصل بات سوچ کو تبديل کرنے کی ہے اور کيا آپ کو نہيں لگتا ہم سوچ کے اُس موڑ پر آ چُکے ہيں يعنی
يہاں تک تو پہنچے يہاں تک تو آۓ
والی مثال ہے اور جب کُچھ کہنے سے دل ہلکے ہو جائيں توفکر نا کريں
اور کُھل جائيں گے دو چار مُلا قاتوں ميں
کے مصداق اچھی تبديلی ہی نظر آۓ گی انشاءاللہ تعاليٰ،طويل تبصرے کے لۓ معافی چاہتی ہُوں کہ آپ سب کا قيمتی وقت برباد کيا اور پچھلے تبصرے کے لۓ بھي جو غلط پوسٹ ہو گيا ايک بار پھر معزرت خواہ ہُوں
دُعائيں
السلام و علیکم
بہت اچھی بات کی۔
مجھے شدید پرا لگتا ہے اگر لوگ کسی کی رائے یا نقطہِ نظر کو چیلنج کرتے ہیں۔ میں نے کسی بلوگ پر لکھا تھا کہ اختلافات اچھی چیز ہین اگر یہ خیالات میں ہین تو۔۔۔
اگر آپ کسی کی بات سے متفق نہیں ہیں تو اچھے طریقے سے دلائل دے کر اسے قائل کرنے کی کوشش کیجیے۔ کسی پر اپنے نظریات مسلظ کرنا سراسر حماقت ہے۔ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کرنا ایک فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آ سکتا۔ گفتگو کے کچھ آداب ہوتے ہیں مگر افسوس بہت سے لوگ ان آداب سے نابلد ہوتے ہیں۔ وہ گفتکو کا رخ اپنے رویوں اور باتوں سے بحث کی طرف موڑ دیتے ہیں، اور بحث گفتگو کو قتل کر دیتی ہے۔
ویسے ایک بات ہے کہ جب انسان کا بس کسی بات پر نہیں چلتا، جب وہ دلائل نہیں دے سکتا، تب وہ ایسی زبان استعمال کرتا ہے کہ اگلا بندہ خود ہی خاموش ہو جائے۔ کیونکہ عزت سب کو پیاری ہوتی ہے۔ بسا اوقات، کچھ لوگوں سے اظہارِاختلافِ رائے کیا ہی نہیں جاسکتا اس لیے نہیں کہ اس کی عزت کی جاتی ہے، بلکہ اس لیے کہ انسان کو خود اپنی بے عزتی ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
فی امان اللہ
آہممم،پچھلے تھکا دینے والے ہفتے کے بعد آج میں نے انٹر نیٹ لگایاتو پتہ چلا کہ یہاں تو کافی محاذ گرم رہا ہے،مہر افشاں اکیلی ہی چو مکھی لڑتی رہیں وہ تو اللہ بھلا کرے نعمان میاں کا جو میدان میں اترے اور انہیں کچھ مدد فراہم ہوئی،خصوصاًنعمان کے یہ الفاظ تو لاجواب ہیں کہ،
اردو بولنے والوں کے خلاف تعصب میں کمی آئی ہے تو اتنی کہ اب لوگ اپنا تعصب چھپانے لگے ہیں،افضل صاحب کیا ہم اسے ایم کیو ایم کی کامیابی گن سکتے ہیں:)
آپ ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ماضی کی بات کرتی رہیں تو آپ لوگ بھی تو ایم کیو ایم کے ماضی کا ہی رونا روتے رہے،
افضل صاحب منہ پھٹ کے بجائے حق گو زیادہ بہتر لفظ ہے،باقی رہا یہ کہنا کہ لوگ اپنی عزت بچانے کے لیئے خاموش ہوگئے تو جن کی عزت افزائی ہوئی وہ تو مسلسل بولتے رہے،باقی لوگ لاجواب ہوکر خاموش ہو گئے،اور اجمل صاحب تو بس قومی رازوں کا ہی رونا روتے رہے جیسے ایک قومی راز حمودالرھمان کے ساتھ فضاؤں میں بکھر گیا،ویسے آپ لوگوں کی خاموشی بھی ان گناہوں کا اقرار تھی،
شاہدہ جی کے مشورے سے زیادہ اچھا مشورہ میرے پاس ہے کیا ہی اچھا ہو اگر کیچڑ تخلیق ہی نہ کی جائے کہ جس سے بچ کر چلنے کی ضرورت پڑے،
مہر افشاں صاحبہ کے بارے میں بھی نہ جانے کیا کیا قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں،
آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ وہ ایک انتہائی دردمند دل رکھنے والی خاتون ہیں اور وہ باتوں پر نہیں عمل پر یقین رکھتی ہیں،ایک سوشل ورکر اور ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کے دروازے ہر شخص کے لیئے بلا رنگ و نسل قوم و مزہب کھلے رہتے ہیں اور یہ سب وہ فی سبیل اللہ کرتی ہیں،ان کا ایک درس قرآن کا حلقہ ہے جہاں وہ قرآن کی تفسیر لوگوں کو سمجھاتی ہیں اور اس میں بھی ہندوستان بنگلہ دیش پاکستان اور پاکستان کے بھی ہر صوبہ کے لوگ شریک ہوتے ہیں سوائے بلوچستان کے اور وہ اس لیئے کہ اس صوبہ کے لوگ اس علاقہ مین ہیں ہی نہیں،
حقیقی والوں کے ذکر پر ان کی تلخی کی وجہ ان کے مظالم اور پھر انکے بھائی کا واقعہ ہوسکتا ہے،
اگر وہ بار بار آپ لوگوں کو الزامات لگانے سے منع کرتی رہی ہیں تو صرف اس خوف سے کے جو غلطی آپ لوگ بنگالی بھائیوں کے ساتھ کر چکے ہیں وہ دوبارہ نہ دہرائی جائے ان کو بھی اس حد تک دیوار سے لگا دیا گیا تھاکہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچاتھا،اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے عوام بھوکے بنگالیوں کو اپنے اوپر حکومت کرتے دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے،ان تلخ سچائیوں کو تسلیم کرنے ہی میں بھلائی ہے تاکہ ہم دوبارہ ایسی کوئی غلطی نہ دہرائیں، کچھ لوگوں کو اعتراض ہے کہ وہ سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتیں معاف کیوں نہیں کر دیتیں تو یہ یک طرفہ رویہ قطعی غیر صحت مندانہ ہے آپ 20 سے 25 ہزار نوجوانوں کا خون تو معاف کروالینا چاہتے ہیں اور آپ خودکچھ معاف کرنے کو تیار نہیں،ایم کیو ایم کے کردہ اور نہ کردہ گناہوں کو مسلسل دہرا کر آپ اسی خوف سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جو اپ کو بنگالیوں سے تھا کہ کہیں وہ ہم پر حکومت نہ کرنے لگیں،حالانکہ ایم کیو ایم نے پنجاب سے پنجابی لوگوں کو ہی نمائندگی دی ہے جو کہ بقول آپکے اجمل صاحب مطلب پرست پنجابی ہیں،ان کے پاس شائد کوئی خاص مشین ہے جس سے وہ لوگوں کے اندر جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کاش ایک بار وہ اپنے اندر بھی جھانک کر دیکھ لیتے،
اور پھر کہاں تو دور دور تک کوئی مہاجر نہ تھا اور کہاں ایم کیو ایم کی محالفت کے لیئے پتہ نہیں کون کون سے کونے کھدروں سے نکل کر آتے رہے ہے نہ زبر دست لطیفہ:)
جن میں سے ایک صاحب نے تو اپنے لوگوں سے اتنی محبت دکھائی کہ انہیں گٹکا ٹائپ کہ دیا میرے بھائی اپنے لوگوں کی ڈسکریمینیشن کرنے والا تم جیسا پہلا شخص ہی نظر سے گزرا ہے،
ایک صاحبہ کو تو اتنا غصہ آیا کہ ان کے اچھے بھلے صحت مند اور تندرست شوہر کو ہی خدانخواستہ اس جہان فانی سے رخصت کرنے کے درپے ہوگئیں،ان محترمہ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اللہ نے اس فیملی کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور اس میں سے ایک آپس میں بے انتہا محبت بھی ہے،باقی میں سعید صاحب سے کہوں گا کہ وہ بھی ضرور از ضرور ایک عدد تبصرہ لکھ ڈالیں،
راشد صاحب تو نہیں مگر باقی لوگ ایم کیو ایم کی مخالفت کرتے ہوئے تھوڑے بہت حقائق پر روشنی ڈال ہی گئے ایک صاحب کو پولس والوں کا غم کھائے جا رہا تھا،وہ پولس والے جو 18 سال سے 20،22 سال کے نوجوانوں کو چیرے لگا کر زندگی بھر کے لیئے معزور بناتے رہے یا ان کو ازیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارتے رہے جن میں ناخن کھیچنا آنکھیں پھوڑنا ڈرل سے جسموں میں سراخ کرنا زندہ انسانوں کے جسموں سے گوشت کے لوتھڑے اتار کر انہیں ازیت ناک موت دینا چند ماورائے عدالت قتل کی کہانیاں تو بی بی سی نے بھی سناہی دیں تھیں اور جسٹس ناصر اسلم زاہد نے جیلوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خوں بہتے زخموں ادھڑے ہوئے جسموں کو دیکھ کر پولس سے جواب بھی طلب کیا تھا آپ لوگوں کو شائد کچھ یاد نہ ہو کیوں کہ یہ آپ کے گھر کا معاملہ نہ تھا،
اگر وہ مارے گئے تو ایسے کرمنل پولس والوں کے مجرموں سے تعلقات ہوتے ہیں ہوسکتا ہے کہ کسی لین دین پر مارے گئے ہوں یا کسی دل جلے نے ہی موقع دیکھ کر کام دکھا دیا ہو لیکن میرے پاس ایک اور زبردست تھیوری بھی ہے کہ جب معاملات نارمل ہونے لگے تو ایجینسیوں نے خود ہی انہیں ٹھکانے لگادیا تاکہ وہ ان کے خلاف کبھی منہ نہ کھول سکیں اور ایسااکثر ہوا کرتا ہے بقول اجمل صاحب سوکالڈ قومی راز:)
ایک افسوسناک بات اور نظر آئی کہ آپ لوگ اپنی بات کے آگے کسی کی قسم کو بھی اہمیت نہیں دیتے،انہوں نے صاف صاف کہا کہ نہ تو وہ ایم کیو ایم کی کارکن ہیں اور نہ ہی وہ اسے ووٹ دیتی ہیں پھر بھی آپ لوگ ان پر الزامات کی بوچھار کیئے رہے افضل صاحب آپنے بہت اچھا کیا ہے کہ کوئی کمنٹ صاف نہیں کیا ہے واقعی جو زہن اور دل صاف رکھتے ہیں انہیں خود ہی سمجھ آجائے گاکہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا،
عبداللہ سائبر ورلڈ میں خوش آمدید۔ امید کرتا ہوں آپ ایک دفعہ پھر ساری پوسٹ پڑھیں گے اور اپنی رائے سے نوازے گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے آپ نے پوسٹ بہت جلدی جلدی پڑھ ڈالیں یا پھر صرف کچھ ہی پڑھ سکے۔۔ کس کا صبر لبریز ہوا، کون لاجواب ہو۔۔ اس پر آپکا تجزیہ بھی بے مثال ہے۔۔ امید ہے خاکسار کی مزید عزت افزائی فرمائیں گے۔
راشد صاحب آپکی تو جتنی بھی عزت افزائی کی جائے کم ہے:)
لیکن میں ایسے لوگوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتا جو نہ تین میں ہوں نہ تیرہ میں:)
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کے تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہوبھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
چپک رہاہےبدن پرلہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے؟
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا!
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جوآنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیاہے!
Kiya hum keecher ucchaalay baghayr baat cheet nahin ker saktay hain?
Leave A Reply