جب سے چيف جسٹس کي غير فعالي کا بحران شروع ہوا ہے حکومت کے موقف کي تائيد کيليے صرف دو وزرا پيش پيش ہيں۔ ان ميں ايک وزير اطلاعات محمد علي دراني جن کو غلطي سے ايک مذاکرے ميں اعتزاز احسن صاحب نے محمد علي غلط بياني کہ ديا اور بعد ميں معذرت بھي کرلي اور دوسرے وزير قانون وصي ظفر ہيں جو اپني زبان کي فراواني کي وجہ سے “بگ آرم”کے نام سے مشہور ہيں۔ ان دونوں وزرا کے علاوہ اس سے پہلے کے بحرانوں مثلاً صدر صاحب کا وردي میں رہتے ہوئے انتخاب اور حدود آرڈيننس ميں تراميم ميں حکومت سے وفاداري نبھانے والے وزير پارليماني امور ڈاکٹر شير افگن تھے جن کےقانوني نقاط کي تکرار سے چڑ کر ايک دفعہ عمران خان نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو قانون کي شقوں کے حوالے دينے کے علاوہ کوئي کام نہيں آتا اور حکومت کو چاہيے کہ جہاں وہ اتني فضول خرچي کررہي ہے ڈاکٹر صاحب کے دماغ کا آپريشن کراکے اس کو درست کرالے۔ ڈاکٹر صاحب کو چيف جسٹس کے بحران ميں غير حاضر پاکر ہمارا ماتھا ٹھنکا اور تب تک کئ وسوسوں نے گھيرے رکھا جب تک يہ پتہ نہيں چل گيا کہ شير افگن صاحب کہاں ہيں۔ ہم نےجب ڈاکٹر صاحب کو تلاش کرنا شروع کيا تو پتہ چلا کہ وہ دل کے عارضے ميں مبتلا ہيں اور ہسپتال ميں داخل ہيں۔

ڈاکٹر صاحب جو جنرل صدر مشرف کے دست راست ہيں ان دنوں اپنے ساتھي وزرا کي نفرت کا شکار ہيں۔ ان کي بدنصبي کا آغاز اس دن شروع ہوا جب انہوں نے اپنے ساتھي وزرا کي ناراضگي کا غصہ وزير اعظم کے ميانوالي کے دورے کا بائيکاٹ کرکے نکالنے کا ارادہ کرليا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کالاباغ ڈيم کي حمايت کرکے سندھ اور سرحد کے وزرا کي مخالفت بھي مول لے لي۔

اس مخالفت نے ہمارے وزرا کو ہمارے مشرقي آداب کو بھي روندنے سے نہيں روکا اور وہ ڈاکٹر صاحب کي بيمار پرسي تک کرنے نہيں گئے۔ ڈاکٹر صاحب کي عيادت اب تک صرف وزيراعظم شوکت عزيز اور ايک وزير انيسا زيب طاہر خيلي نے کي ہے۔

جب ڈاکٹر صاحب سے وزرا کي اس بےحسي کے بارے ميں پوچھا گيا تو انہوں نے کہا کہ وزرا کي ان کي بيمار پرسي نہ کرنے کي طرح کي حرکات انہيں تنگ نہيں کرتيں۔ ان کيليے اتنا ہي کافي ہے کہ ملک کے وزيراعظم نے ان کي عيادت کي ہے۔

اعجاز الحق اور ہمايوں اختر نے تو فون تک کرنے کي زحمت نہيں کي۔ جن وزرا کو ڈکٹر شيرافگن کي عيادت کرني چاہئے تھي اورانہوں نے نہيں کي ان کي فہرست لمبي ہے۔ چند ايک مشہور ناموں ميں غوث بخش مہر، لياقت جتوئي، حفيظ شيخ، علي نواز مہر، محمد علي ملکاني، بابر غوري، شيميم صديقي اور عامر لياقت حسين شامل ہيں۔

ڈاکٹر صاحب کي بے قدري کي انتہا تب ديکھنے کو ملي جب ان کے پيٹرياٹ گروپ کے فيصل صالح حيات، آفتاب شيرپاؤ اور دوسرے ارکان بھي ہسپتال عيادت کرنے نہيں گئے۔ آفتاب شيرپاؤ تو پيٹرياٹ کے چئير مين ہيں۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھي وزرا اور دوستوں سے تو حزب اختلاف کے سياستدانوں نے مشرقي روايات کا پاس رکھتے ہوئے عيادت کي ہے۔ چليں ان کي عيادت کے پيچھے بيشک سياسي غرض ہي چھپي ہو پھر بھي انہوں نے ڈاکٹر صاحب کي عيادت کرکے اپنے نبي صلعم کي اس حديث کو زندہ کرديا ہے جس ميں آپ صلعم نے فرمايا کہ جب کوئي بيمار ہوجائے تو اس کي بيمار پرسي کرنے جايا کرو۔

ڈاکٹر صاحب کہتےہيں کہ کالاباغ کا نہ بننا ان کي زندگي کا دوسرا بڑا الميہ ہے۔ اس سے پہلے 2002 ميں وہ اپنے انتيس سالہ جوان بيٹے کي ايک حادثے ميں موت کے الميے کا دکھ جھيل چکے ہيں۔

ڈاکٹر صاحب کے حکومتي وزرا اور پيٹرياٹ کے ارکان کي بے توجہي تو يہي بتا رہي ہے کہ ڈاکٹر شيرافگن صاحب کا سورج اب ڈھل رہا ہے اور ان کے ساتھي چڑھتے سورج کي پوجا کرنے والے ہيں۔ ہوسکتا ہے اب ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا ہو کہ کون مخلص ہے اور کون خودغرض مگر اب شايد دير ہوچکي ہے۔ ہماري تو دعا ہے کہ خدا ڈاکٹر شير افگن صاحب کو دوبارہ تندرست کردے تاکہ وہ اپنے دشمنوں کي خبر لےسکيں۔

دہائي خدا کي، ان وزرا کا ڈاکٹر صاحب سے اس طرح بدلہ ايک نہايت ہي گري ہوئي حرکت ہے۔ اس طرح عيادت نے کرنے والے وزرا نے کوئي بہادري نہيں دکھائي بلکہ ايک بے بس آدمي کے سامنے شیر بننے کي کوشش کي ہے۔ ہميں اميد ہے اس عبرت انگيز واقعے سے لوگ سبق سيکھيں گے اور انہيں ياد رہے گا کہ دنيا ميں ہرچيز فاني ہے اور اگر کسي نے غيرفاني بننا ہے تو پھر لوگوں کے دلوں پر حکمراني کرے ۔