کبھی کبھی سیانے لوگوں سے بھی ایسی ایسی حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی ان کی عقل پر شک کرنے لگتا ہے۔ حسین حقانی جیسا مدبر اور جہاندیدہ شخص میوگیٹ سکینڈل میں اییسا پھنسا کہ اسے پاکستان کی ایک اہم ترین سرکاری نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کی اس حماقت نے اس کے آقا کو بھی ازالہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔ حسین حقانی کو ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہوئے یہ تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں ایسے کاموں کیلیے بلیک بیری جیسے آلات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اسی طرح بھٹو اپنی حماقت کی وجہ سے پھانسی چڑھ گیا۔ اس کو یہی زعم تھا کہ ضیاع الحق اسے کبھی پھانسی نہیں دے سکے گا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کی جب کسی کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو اسے بیکار سمجھ کر پھینک دیا جتا ہے۔ جو لیڈر عوام سے کٹ جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جنگ میں وہی فتح حاصل کرتا ہے جس کے ساتھ اس کی عوام ہوتی ہے۔

صدام حسین اور قذافی کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا اور انہیں عالمی طاقتوں سے ٹکر لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ عوام کی حمایت کے بغیر وہ کبھی بھی جیت نہیں پائیں گے۔

مشرف کو اپنی وردی کا زعم لے ڈوبا۔ اس نے مسجد حفصہ اور شپریم کو اپنی طاقت سے زیر کرنے کی کوشش کی اور آخر کار اسے ملک بدر ہونا پڑا۔ اب وہ پاکستان واپس آنے کے قابل بھی نہیں رہا۔