جنرل کیانی نے اپنے فوجی افسروں سے بات چیت کرتے ہوئے کچھ باتیں عوام اور سپریم کورٹ کو مخاطب کر کے کی ہیں۔ سب سے اہم بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ایک شخص کی غلطی کو انفرادی طور پر لیا جائے اور اس کی غلطی کا ذمہ دار اس کے ادارے کو نہ قرار دیا جائے۔ یہاں جنرل صاحب یہ بات بھول رہے ہیں کہ جب کسی ادارے کا سربراہ کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ پورے ادارے کی غلطی تصور کی جاتی ہے۔ فوج نے جتنی دفعہ سول حکومتوں کا تختہ الٹ کر ڈکٹیٹرشپ قائم کی ہے وہ کسی ایک شخص کی غلطی نہیں ہے بلکہ پوری فوج کی غلطی ہے۔ کل کو جو جنرل مارشل لا لگائے گا وہ موجودہ فوج کا ہی حصہ ہے۔ اسلیے جنرل کیانی کو اگر فوج کی عزت عزیز تھی تو پھر انہیں پہلے اپنی نوکری میں ملی ایکسٹینشن مسترد کر کے ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کی ایکسٹینشن فوج کیلیے ایک اور بری مثال چھوڑ گئی ہے۔ دوسرے انہیں چاہیے کہ اپنی فوج کیلیے ایسے قوانین مرتب کر جائیں کہ وہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرے ناں کہ صدارتی محل اور وزیراعظم ہاوس کی۔
ہماری سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے اور اپنی غلطیوں کا دوسروں کی غلطیوں سے دفاع کرتے ہیں جو انتہائی جاہلیت کی نشانی ہے۔ بہادر شخص وہی ہے جو سرعام نہ صرف اپنی غلطی کا اعتراف کرے بلکہ اس کی تلافی بھی کرے۔
ہمارا یہ معاشرتی المیہ رہا ہے کہ ہم غلط کاموں سے پہلے دولت اکٹھی کرتے ہیں پھر توبہ کر کے پرہیزگار بن جاتے ہیں مگر ناجائز کمائی گئی دولت کے گناہ کی تلافی نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ توبہ کرتے وقت پہلے حرام کی کمائی سے قطعہ تعلق کیا جائے اور پھر توبہ استغفار کی جائے۔ تازہ مثال سٹیج ڈانسر نرگس کی ہے۔ اس نے ہر ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کی، پھر اس سال حج کرنے کے بعد توبہ کر لی اور اب دین سیکھنے لگی ہے۔ مگر خدا اس کے سابقہ گناہ تبھِی معاف کرے گا جب وہ ناجائز کمائی گئی دولت کا ایک ایک پیسہ اپنے گھر سے باہر پھینک دے گی۔ یہی سب سے مشکل کام ہے اور ہم نے ابھی تک ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جس نے اس طرح توبہ کی ہو۔ جنرل کیانی کو بھی چاہیے کہ اپنے رفقا کے کردہ گناہوں کی پہلے تلافی کریں اور پھر قوم سے امید رکھیں کہ وہ ان کے ادارے پر تنقید نہیں کرے گی۔