خدا خدا کر کے انتخابات 2013 مکمل ہو گئے۔ توقع کے مطابق مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا اور وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائے گی۔ شاید اسی وجہ سے الطاف بھائی نے مسلم لیگ ن کو پنجابیوں کی جماعت کا طعنہ دے کر مبارک باد دی ہے۔ ان کی اس یاوہ گوئی سے لسانیت کی بو آئی ہے جو کراچی کی بدامنی کے اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی جیسی قومی پارٹی سمٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی ہے اور وہ ایم کیو ایم سے ملکر صوبائی حکومت بنا لے گی مگر گورنر اب تبدیل ہو جائے گا۔
اس دفعہ بھی آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد منتخب ہوئی ہے۔ روایت کے مطابق یہ لوگ ذاتی مفادات کے بدلے حکومتی پارٹی میں شامل ہوتے جائیں گے۔ جونکہ اس دفعہ مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کیلیے کسی کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی اس لیے ضروری ہے کہ آزاد امیدواروں کو بالکل لفٹ نہ کرائی جائے تا کہ ان کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ اگلے انتخابات میں آزاد امیدوار نہ کھڑے ہوں۔ بلکہ ہمارے خیال میں تو الیکشن کمیشن کو آزاد امیدواروں کو ان کی بدنیتی کو سامنے رکھتے ہوئے اانتخابات لڑنے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہیے۔
پی ٹی آئی وہ سونامی برپا نہیں کر سکی جس کی اس نے رٹ لگا رکھی تھی لیکن وہ ریکارڈ عوام کی تعداد کو پولنگ بوتھ تک لانے میں کامیاب رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف اگلے پانچ سال میں عوام کو کیا دیتے ہیں۔ کیا وہ سب سے بڑا مسئلہ یعنی بجلی کا بحران ختم کر سکیں گے۔ ہمیں تو اس کی توقع کم ہی ہے۔
ٹی وی کے مبصرین کی بہت بڑی تعدا اس بات پر متفق ہے کہ ایم کیو ایم نے اس دفعہ بھی کراچی میں جما کر دھونس اور دھاندلی سے اپنی سیٹیں جیتیں۔ کچھ خفیہ کیمروں سے جب ہم نے جعلی ووٹ بھگتانے والے ٹی وی پر دیکھے تو ہمیں یہ تجویز سوجھی کہ اگلے انتخابات سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں ہونے چاہئیں اور جس پولنگ بوتھ کا سی ٹی وی کیمرہ کام نہ کرے اس پر پولنگ روک کر دوبارہ کرانی چاہیے۔ موجودہ ہائی ٹیک دور میں اگر الیکشن کمیشن چاہتا تو دھاندلی کو آسانی سے روک سکتا تھا مگر بوڑھا ناچار ادارہ توقعات پر پورا نہیں اترا۔
آخر میں مسلم لیگ ن کو کامیابی پر مبارک بار اور امید ہے کہ “ہر اگلی حکومت پچھلی حکومت سے بدتر” کی سابقہ روایت کو مسلم لیگ ن اس دفعہ توڑ دے گی اور اچھی کارکردگی دکھا کر اگلے انتخابات جیتنے کا ٹارگٹ ذہن میں رکھے گی کیونکہ اس دفعہ لوگوں نے حکومتی کارکردگی کو ضرور ذہن میں رکھ کر ووٹ ڈالے ہیں۔
خدا کی شان دیکھیے 1999 میں پروزی مشرف نے نواز شریف کو قید کیااور خود ڈکٹیٹر بن بیٹھا۔ اب 2013 میں نواز شریف سربراہ ہے اور پرویز مشرف قیدی ہے۔ اس مکافات عمل سے سیاستدانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔