نو گیارہ کے بعد جہاں صدر بش کی لاٹری نکل آئی وہیں جنرل صدر مشرف کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی کو القاعدہ کا نام دے کر جہاں صدر بش دوسری بار صدر منتخب ہوئے وہیں جنرل صدر مشرف نے بھی دہشتگردی اور انتہاپسندی کے نام پر دھڑلے سے حکومت کی۔  روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے تواتر سے لگائے جانے والے نعرے نے بہت سے بنیادی  مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ نو گیارہ ہی تھا جس کی بدولت دولت پاکستان میں آئی اور امیر طبقے کے وارے نیارے ہوگئے۔ اس دولٹ کی ریل پیل نے ایک طرف پراپرٹی مافیا کی جنم دیا تو دوسری طرف سٹاک مارکیٹ آسمانوں کو چھونے لگی۔

تب سے آج تک جنرل مشرف ہوں یا وزیراعظم ان کی ہر تقریر کا موضوع دہشتگردی اور انتہا پسندی ہوتا ہے۔ اس یوم آزادی کی تقریبات ہوں یا سوموار کے دن جنرل مشرف کا ٹی وی پروگرام،  دہشتگردی اور انتہا پسندی کا رونا اس طرح رویا جارہا ہے جیسے یہی عام آدمی کے تمام مسائل کی جڑ ہیں۔

جنرل صدر مشرف کے آٹھ سالہ دور کی نمایاں کامیابیوں میں سے ایک ملکی معیشت کی بحالی ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ سب نو گیارہ کی مرہون منت ہے اس میں جنرل مشرف کی اپنی خوبی صرف یہ ہے کہ انہوں نے اتحادیوں کے مطالبات من وعن مان کر اپنی حکومت کو ان کے ٹارگٹ حاصل کرنے کیلیے وقف کردیا جس کے بدلے میں ہمیں کروڑوں ڈالر ملے۔

لیکن دوسری طرف جنرل صدر مشرف کی حکومت نے ان کروڑوں اربوں ڈالروں کا استعمال سوچ سمجھ کر نہیں کیا بلکہ ان ڈالروں سے اپنی جیبیں بھر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے حالات زندگی جوں کے توں رہے اور ان میں رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔

جنرل صدر مشرف کی حکومت بجلی کے بحران کا سبب بنی جس کی وجہ حکومت کی غلط پلاننگ تھی۔ ان کی حکومت اپنے آٹھ سالہ دور میں ایک بھی ڈیم بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ کیا اس کی وجہ دہشتگردی اور انتہا پسندی تھی؟

جنرل صدر مشرف کی حکومت نے نج کاری کا عمل شروع کرکے قومی اثاثے کوڑیوں میں بیچ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر ملکی معیشت کو بیرونی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ڈال دینے کی بنیاد رکھی۔ سٹیل مل کی کرپشن کیا دہشتگردی اور انتہاپسندی کا شاخسانہ تھی؟

جنرل صدر مشرف کے دور حکومت میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں جتنا اضافہ ہوا اتنا پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ کیا مہنگائی کا یہ سیلاب دہشتگردی اور انتہاپسندی کی وجہ سے آیا؟

کراچی میں ٹریفک کا مسئلہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ اب جب ٹریفک جام ہوتی ہے تو لوگ ٹریفک میں ایک دو نہیں دس دس گھنٹے پھنسے رہتےہیں۔ کیا کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی دہشتگردی اور انتہاپسندی کی دین ہے؟

حکومت ملک کی ترقی کا اندازہ موبائل فونوں کی بہتات سے لگاتی ہے لیکن دوسری طرف بیروزگاری نے نوجوانوں کو ڈاکے ڈالنے پر مجبور کردیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن ملک کے بڑے بڑے شہروں میں درجنوں ڈکیتیاں اخباروں میں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ کیا یہ ڈکیتیاں دہشتگردی اور انتہاپسندی کی وجہ سے ہیں؟

اس وقت یہ حالت ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی رشوت کے بغیر ناممکن ہوچکا ہے اور رشوت لینا دینا حرام نہیں مانا جاتا بلکہ کاروبار بن چکا ہے۔ کیا رشوت خوری کو فروغ دہشتگردی اور انتہاپسندی  کی وجہ سے ملا؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا بحران کیا دہشتگردی اور انتہاپسندی کی پیداوار تھا؟

کیا کراچی کا قتل عام دہشتگردی اور انتہاپسندی کا شاخسانہ تھا؟

حکومت پتہ نہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہی کہ اب وقت بدل چکا ہے اور اگلے انتخابات دہشتگردی اور انتہاپسندی کے زور پر نہیں جیتے جائیں گے۔ اب عوام پہلے سے بہت سیانے ہوچکے ہیں اور وہ آسانی سے بیوقوف بننے والے نہیں۔ جنرل صدر مشرف  اپنے ہی لگائے ہوئے میڈیا کےپودے کا ترش پھل اب چکھنے والے ہیں اور یہی میڈیا جس نے عدالتوں کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا اب بنیادی حقوق کی بحالی میں بھی سر دھڑ کی بازی لگادے گا۔ اب جبکہ قصبے قصبے اور گاؤں گاؤں میںڈش اور کیبل پہنچ چکی ہے جس نے ہر چھوٹے بڑے کی آنکھیں کھول دی ہیں، حکومت کا دہشتگردی اور انتہاپسندی کا واویلا اب ناکام ہوجائے گا اور عوام صرف اسی کو ووٹ دیں گے جو ان کی پیٹ پوجا کا بندوبست کرے گا۔ اسلیے حکومت بھی ہوش میں آئے،  دہشتگردی اور انتہاپسندی کو چھوڑ کر عام آدمی کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے اور اسی کی بنیاد پر اگلا الیکشن لڑنے کی پلاننگ کرے یہی اس کے حق میں بہتر ہے ورنہ حزب اختلاف اگلے انتخابات میں سارے برج الٹ دے گی۔