ايک اچھي خبر بڑے عرصے کے بعد سننے کو ملي ہے کہ حکومت نے ماہِ رمضان کے دوران ٥٠٠ اشياۓ ضرف کي قيمتيں کم کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ يہ آنے والا وقت ہي بتاۓ گا کہ حکومت اس بارے ميں مخلص تھي يا يہ بھي صرف سياسي ڈھونگ تھا۔ اب تک کوئي بھي حکومت وعدوں کے باوجود رمضانِ مبارک ميںسستي اشيا مہيا کرنے کے وعدے پورے نہيں کر سکي۔ ہميشہ بڑے بڑے دعوے کۓ گۓ مگر نتيجہ کچھ بھي نہ نکلا بلکہ اشياۓ صرف کي قيمتيں پہلے سے بھي زيادہ بڑھ گئيں۔
يورپ ميں اگر آپ ديکھيں تو بڑے بڑے تہواروں پر بڑي بڑي کمپنياں اپني چيزوں کي قيمتيں کم کر ديتي ہيں اور اس دوران ہر چيز کي سيل لگي ہوتي ہے۔ صرف ہمارا ملک ايک ايسا ملک ہے کہ جہاں تہواروں پر تمام اشيا کي قيمتيں بڑھا دي جاتي ہيں اور اکثر بعد ميں کم بھي نہيں ہوتيں۔ يہ سب موجودہ حکومت کي نااہلي ہوتي ہے کہ اس کا اشياۓ صرف بيچنے والي کمپنيوں پر کوئي کنٹرول نہيں ہوتا۔ اور کنٹرول ہو بھي کيسے جب يہي تاجر حکومت ميں شامل ہوتے ہيں۔ اسي لۓ کہتے ہيں کہ وہي حکومت کامياب ہوتي ہے جس کے نمائندے عام لوگ ہوتے ہيں اور ان ميں کوئي سرمايہ دار اور صنعت کار شامل نہيں ہوتا۔ مگر چونکہ ہماري موجودہ حکومت آرمي کي ہے اس لۓ بقول صدر صاحب کسي کے آگے جواب دہ نہيں ہے۔ اس حکومت نے بھي دوسري حکومتوں کي طرح عوام کي طاقت پر انحصار کرنے کي بجاۓ وڈيروں اور جاگيرداروں کو حکومت کا حصّہ بناياہوا ہے۔ اور اب تو ماشااللہ نام کا وزيرِاعظم بھي درآمد شدہ ہے۔ تو ان حالات ميں حکومت کا يہ وعدہ کہ وہ رمضان ميں اشياۓ صرف کي قيمتيں کم کرے گي صرف کھوکھلا ہي معلوم ہوتا ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ حکومت کو اس کا کم از کم يہ وعدہ تو وفا کرنے کي توفيق دے چاہے بے شک يہ صرف انتخابي وعدہ ہي کيوں نہ ہو۔
بات وہي ہے جو اقبال نے قرآن کے مضمون کر شعر ميں بند کرکےکي ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي
نہ ہو جس کو خيال آپ اپني حالت کےبدلنے کا