جب سے جنرل مشرف کو دوبارہ صدر بنانے کی مہم شروع ہوئی ہے ملک کے باقی ماندہ مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ دراصل جنرل مشرف کی دوبارہ بمع وردی صدارت کی جتنی ضرورت خود ان کو ہے اتنی ہی مسلم لیگ ق کو ہے۔ اکثریت کا دعویٰ ہے کہ آج اگر جنرل مشرف وردی اتار دیں تو مسلم لیگ ق میں اکھاڑ پچھاڑ اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔

اس سیاسی بحران کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن نے اس منہ زور مہنگائی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ملک کی تاریخ میں ریکارڈ حد تک آٹا اور باقی اشیائے ضرورت مہنگی ہوچکی ہیں مگر کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ دراصل عوام بھی اس مہنگائی کو ابھی تک برداشت کررہے ہیں تبھی تو حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت اور سیاستدان موجودہ بحران کی وجہ سے مہنگائی کم کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ مگر دوسری طرف خود ایم کیو ایم نے بھی مہنگائی کے ایشو پر سخت موقف اختیار نہیں کیا اور جہاں جہاں اس کی حکومت ہے مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم کیو ایم حکومت کو چیلنج دیتی کہ اگر مہنگائی کنٹرول نہ کی گئی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائے گی مگر ایم کیو ایم خود حکومت کے مزے خراب نہیں کرنا چاہتی اسلیے بیان بازی سے آگے کچھ نہیں کررہی۔

یہ سال چونکہ انتخابی سال بھی ہے اسلیے حکومت مہنگائی کا بوجھ خود بھی برداشت کررہی ہے۔ ہم کئی دفعہ پٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کیساتھ پاکستان میں قیمتوں کے تعین کی بات کرتے رہے ہیں۔ یعنی عالمی مارکیٹ میں جوں جوں تیل مہنگا ہوا حکومت قیمت بڑھاتی رہی مگر جب سستا ہونا شروع ہوا تو پھر حکومت کو سانپ سونگھ گیا۔ آخرکار کچھ ماہ قبل حکومت نے پٹرول کی قیمت کچھ کم کی۔ اب حکومت کی بدقسمتی دیکھیے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت ریکارڈ حد تک پہنچ چکی ہے جوکہ 82 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ ہے۔ اب وقت تھا کہ حکومت پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرتی مگرچونکہ حکومت پہلے ہی سیاسی بحران کا شکار ہے، مہنگائی زوروں پر ہے اور اوپر یہ سال بھی انتخابات کا ہے اسلیے اب وہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا خطرہ مول نہیں لے رہی اور روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کررہی ہے۔ اگر پہلے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کیساتھ ساتھ حکومت پٹرول کی قیمتیں مقرر کررہی ہوتی تو آج اسے نقصان اٹھانا نہ پڑتا۔

 لیکن کیا کريں ہماری روایت رہی ہے کہ پاکستان ٹکڑے ہوجائے مگر کرسی کی ٹانگیں سلامت رہیں اور اسی لیے موجودہ حکومت کی بھی یہی کوشش ہے کہ اس کی حکومت بچ جائے چاہے اس کے بدلے مالی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوجائے۔