ہمارا ایک چھ سالہ بھتیجا اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہے اور اس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات”۔ پیار سےہم اسے “چکری” کہتے ہیں۔  ایک دن وہ والدین کیساتھ ہمارے گھر آیا ہوا تھا اور ہمارے بچوں کیساتھ ملکر گھر میں اودھم مچا رہا تھا۔ ہم نے اسے سختی سے منع کیا تو وہ ہمارے بیٹے سے کہنے لگا کہ آپ کے ڈیڈی بہت Mean یعنی کمینے ہیں۔ ہم نے سن لیا اور اسے بلا کر کہا کہ تم نے ہمیں کمینہ کیوں کہا۔ چلو ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔ ہم نے جونہی باہر کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالنے کا ڈرامہ کیا تو وہ کہنے لگا انکل میں تو مذاق کررہا تھا۔ یہ سن کر سب لوگ ہنس پڑے۔

مولانا فضل الرحمٰن بھی ہمارے بھتیجے کی طرح کے “چکری” انسان ہیں جن کو الفاظ سے کھیلنا آتا ہے۔ آج کل اسی طرح کے انسان کو سیاسی انسان کہتے ہیں جو دوسروں کو چکر دے کر اپنا مقصد حاصل کرلے۔

انہوں نے جنرل مشرف کیساتھ آٹھ سالہ دور میں اقتدار اور حزب اختلاف کے مزے ایکساتھ لینے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ عام زندگی میں تو ایسے شخص کو دوغلا، بے ضمیر اور دھوکے باز کہا جاتا ہے جو دشمنوں اور دوستوں دونوں سے اس طرح بنا کر رکھے کہ ہرکوئی سمجھے کہ وہ ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ لیکن سیاسی زندگی میں ایسے شخص کو سیاست کا کامیاب کھلاڑی کہتے ہیں۔ 

بینظیر کے دور میں جب نصیراللہ بابر کو بھی مولانا چکر دینے لگے تو ایک دن انہوں نے بینظیر سے کہا کہ وہ مولانا کو خود سنبھالیں۔ وہ کہنے لگے کہ مولانا کی ڈیمانڈز اس حد تک بڑھتی جارہی ہیں کہ ان کا خیال ہےاگر سٹیٹ بنک کی چابیاں مولانا کو دے دی جائیں تو پھر وہ خوش ہوں گے۔

اب تک ایم ایم اے میں یہ کریڈٹ اکیلے مولانا فضل الرحمٰن کو ہی جاتا ہے جنہوں نے ایم ایم اے کو ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے میں جنرل مشرف کی مدد کیلیے راضی کیا اور اس کے بدلے سرحد کی پوری حکومت، بلوچستان کی آدھی اور حزب اختلاف کی کرسی حاصل کرلی۔ حزب اختلاف کی سرحد میں حکومت کا اپنی مدت پوری کرنے کا انوکھا ریکارڈ بھی مولانا کی چکربازی کی وجہ سے قائم ہورہا ہے۔ بلکہ یہ انہی کا اعجاز ہے کہ اے پی ڈی ایم کے استعفوں کے باوجود سرحد اسمبلی کیا ٹوٹتی اس کے ممبران استعفے بھی نہیں دے پائے۔

حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک بھی اسمبلی میں پیش نہ ہوتی اگر مولانا کی جماعت کی ایک رکن تحریک پر دستخط نہ کرتی۔ ابھی تک مولانا نے اس رکن اسمبلی کو جماعت سے بھی نہیں نکالا۔ آج جب مولانا سرحد اسمبلی کا اجلاس بذات خود دیکھنے گئے تو اس میں کوئی شک کی گنجائش نہ رہی کہ سرحد اسمبلی نہ توڑ کر مولانا نے جنرل مشرف کو ایک اور فیور دی ہے۔ اب پتہ نہیں اس کے بدلے مولانا کو کونسا نذرانہ پیش کیا جائے گا۔

سترہویں ترمیم کے بعد مولانا نے حقوق نسواں بل پر استعفے دینے کا وعدہ توڑا اور تمام مذہبی سیاستدانوں کو گندہ کرکے رکھ دیا۔

 اس کے بعد لندن میں اے پی سی میں چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک پر اختلافی بیان دے کر سب کو حیران کردیا۔

موجودہ استعفوں کا جب اے پی ڈی ایم نے اعلان کیا تو مولانا نے سعودی عرب سے اختلافی بیان دے کر ایک بار پھر اپنے اتحادیوں کو ششدر کردیا۔

 کہتے ہیں پشاور میں اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں استعفوں کے معاملے پر مولانا اور قاضی حسین کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا اگر مسلم لیگ ن کے ظفر اقبال جھگڑا بیچ بچاؤ نہ کراتے تو اس دن ایم ایم اے ٹوٹ جاتی۔

 اب اگر استعفے دیے بھی ہیں تو سرحد اسمبلی کو توڑنے نہیں دیا تاکہ جنرل مشرف کے صدارتی انتخاب میں تمام اسمبلیاں موجود رہیں اور انتخاب کو غیرقانونی ہونے سے بچایا جاسکے۔ وگرنہ مولانا اگر چاہتے تو عدم اعتماد کی تحریک کا سنتے ہی سرحد اسمبلی توڑنے کا حکم وزیراعلٰی اکرم درانی کو دے دیتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کا ذکر اخبارات میں کئی روز سے ہورہا تھا۔

اتنے واقعات کے بعد بھی اگر ایم ایم اے میں اتحادی جماعتوں کے سربراہ خاموش بیٹھے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سب لوگ “چکری” ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اقتدار کی قربانی دے سکے۔

ہمیں یہ بھی شک ہے کہ قیامت کے روز بھی کہیں مولانا چکر دینے سے باز نہ آئیں اور اپنے “چکری پن” کا فائدہ اٹھا کر جنت میں داخل ہوجائیں۔  اتنا بڑا مذہبی آدمی اور لاکھوں باعمل مسلمانوں کا لیڈر اس طرح کی سیاست کرتے ہوئے ذرا بھی خدا کا خوف دل میں نہیں رکھتا۔ ہمیں پکا یقین ہے کہ مولانا نے بھی عام مسلمانوں کی طرح اپنی سیاسی چالوں کا کوئی نہ کوئی اسلامی جواز گھڑ رکھا ہوگا اوربخشش کی امید لگائے بیٹھا ہوگا۔