کسرتی جسم اور بہت ہی ذہین آدمی گاؤں میں بچپن گزار کر جوانی میں جب زرعی یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس کی ذہانت کے چرچے پہلے سال سے ہی عام ہوگئے۔ حافظ صاحب نے اپنی کلاس میں ٹاپ کیا اور اسی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔ اسی دوران ان کی ایک عام سی اور ان پڑھ لڑکی سے شادی ہوگئی۔ حافظ صاحب پی ایچ ڈی کرنے یورپ چلے گئے اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بہت ساری نوکریوں کی آفرز ٹھکرا کر اسلیے پاکستان واپس آگئے کہ انہیں پاکستان کی محبت کیساتھ ساتھ اپنی بیوی کا خیال بھی تھا جو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر یورپ میں بسنا نہیں چاہتی تھی۔ بیوی کی جدائی میں حافظ صاحب نے شاعری بھی شروع کردی۔ وہ اکثر اپنا یہ شعر اب بھی اپنی بیوی کو سنایا کرتے ہیں۔

حافظ نہ جانے یہ ان کی اداؤں کا اثر تھا

کہ جلوے نہ بھا سکے مجھے مغرب کی اداؤں کے

وقت پر لگا کے اڑتا گیا، اس دوران حافظ صاحب کی اولاد نے اپنے اپنے گھر بسا لیے اور خود حافظ صاحب نے ریٹائر ہو کر کاروبار شروع کردیا۔ حافظ صاحب کا ایک بیٹا نالائق نکلا جسے انہوں نے مالی طور پر سہارا دینا شروع کردیا۔ دوسرا بیٹا جو کیڈٹ کالج کے بعد میڈیکل کالج میں پہلے سال میں جب ٹاپ کررہا تھا تو بھٹک گیا اور اس نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ حافظ صاحب کی کوششوں سے اس نے دوبارہ میڈیکل کالج میں پڑھائی شروع کردی اور اب وہ بھی ایک جیل میں ڈاکٹرلگا ہوا ہے۔

زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی کہ دس سال قبل ایک دن اچانک حافظ صاحب کی نورِ نظر بیمار پڑگئی۔ حافظ صاحب نے علاج کرایا مگرآفاقہ نہ ہوا۔ ایک دن اچانک ان کی بیوی قومے میں چلی گئی اور حافظ صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حافظ صاحب جو پہلے ہی پانچ وقت کے نمازی تھے انہوں نے اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنا شروع کردیں۔ جب بیگم صاحبہ کو قومے میں گئے ایک ہفتہ ہوگیا تو ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا اورلواحقین سے کہا کہ وہ بیگم صاحبہ کی پرسکون موت کی دعائیں مانگنا شروع کردیں۔

ایک طرف حافظ صاحب نے دعاؤں کیساتھ ساتھ اپنی بیگم کے سرہانے بیٹھ کر روزانہ ایک قرآن پاک ختم کرنا شروع کردیا تاکہ ان کی بیگم ٹھیک ہوجائے تو دوسری طرف ان کی اولاد نے اپنے عزیزواقارب سے اپنی ماں کے گناہوں کی معافی مانگنا شروع کردی تاکہ ان کی ماں کو اس تکلیف سے جلد سے جلد نجات مل سکے۔

ایک بیٹا جب اپنی ماں کے گناہوں کی معافی مانگنے اپنے سسراور ساس کے پاس گیا تو انہوں نےکہا کہ بیگم صاحبہ نے جیسے ان کی بیٹي کو ستایا ہے انہیں معاف کرنے کو دل تو نہیں چاہتا مگر پھر بھی اللہ واسطے معاف کیا۔

ڈاکٹرز کی وارننگ کے بعد اولاد نے اپنی ماں کی قبر بھی تیار کرادی تاکہ گرمی کے موسم میں ان کی میت زیادہ خراب نہ ہو اور سارا خاندان بیگم صاحبہ کی موت کا انتظار کرنے لگا۔

دوسری طرف حافظ صاحب نے آس کا دامن تھامے رکھا اور اپنی بیگم کی سانس اور خوراک کیلیے لگی نالیوں کو ہٹانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے دعاؤں کیساتھ ساتھ  قرآن پڑھنے کا وقت بھی بڑھا دیا۔ پورے دو ہفتے بعد ایک دن اچانک حافظ صاحب نے کیا دیکھا کہ ان کی بیگم نے آنکھیں کھول لی ہیں۔ انہوں نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا جس نے بتایا کہ مریض قومے سے باہر آرہا ہے اور اگلے چند گھنٹوں میں صورتحال پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چند گھنٹے کیا بلکہ چند منٹ میں حافظ صاحب کی شریک حیات نارمل حالت میں واپس آگئیں اور چند دن بعد مکمل صحت یاب ہوکر گھر چلی گئیں۔

اس وقت حافظ صاحب کی عمر اسی سال سے تجاوز کرچکی ہے اور وہ اپنی بیگم کیساتھ صحت مند بھرپور زندگی گزار رہے  ہیں۔ دونوں میاں بیوی ابھی بھی صبح مکھن اور لسی کیساتھ ناشتہ کرتے ہیں اور دوپہر کو صرف فروٹ کھاتے ہیں۔ ان کی اولاد سمیت ان کے سارے رشتے دار اس بات پر اب بھی حیران ہوتے ہیں کہ یہ معجزہ کیسے ظہور پذیر ہوا۔

بیگم صاحبہ کے معمولات زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ اب بھی سخت مزاج ہیں اور اپنی بہوؤں کیساتھ ساتھ اپنے مجازی خدا کو ڈانٹ پلاتی رہتی ہیں۔ لیکن اب چونکہ بیٹے اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں اس اسلیے ان کی بیویاں کبھی کبھار کی ڈانٹ کا برا نہیں مناتیں۔ حافظ صاحب اب بھی اپنی بیوی کا بھرپور خیال رکھتےہیں اور اس کو خوش کرنے کیلیے یہ شعر کبھی کبھار گنگنا دیتے ہیں۔

حافظ نہ جانے یہ ان کی اداؤں کا اثر تھا

کہ جلوے نہ بھا سکے مجھے مغرب کی اداؤں کے