ماحول کو خوشگوار بنانے کیلیے ہم نے سوچا کیوں ناں کھیلوں کی ڈوری کا کھیل شروع کیا جائے۔ یعنی ہم ایک مقامی کھیل کے بارے میں لکھیں گے جو ہم نے کھیلا اور اس کے بعد پانچ بلاگرز کو ٹیگ کریں گے تا کہ وہ اپنے اپنے منفرد کھیل کے بارے میں لکھیں۔ اس طرح ہر کوئی پانچ مزید بلاگرز کو ٹیگ کرے گا اور کھیل کھیل میں بہت سارے کھیلوں کے بارے میں معلومات اکٹھی ہو جائیں گی۔

ڈگی

یہ بہت سادہ سا، منفرد اور غریب پرور کھیل تھا جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ یہ پنجاب کے گاؤں میں 1960 1970 کی دھائی میں مقامی طور پر کھیلا جاتا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے کہ نہیں۔

اب تو یہ گاؤں بھی شہر کی سہولتوں سے مزین ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے دو سال قبل ہمیں بہت کم بچے  باہر کھیلتے نظر آئے۔ ہر کوئی موبائل، کمپیوٹر اور کیبل میں مگن نظر آیا۔ ہاں ہم نے کرکٹ کھیلتے بچوں کو ضرور دیکھا۔

آج کل کے ٹالوں پر رکھی لکڑیوں کی طرح کی لکڑیوں کیساتھ لڑکے میدان میں پہنچ جاتے تھے۔ پہلے میدان کے درمیان میں ایک لکیر کھینچ لیتے اور ٹاس کے بعد ہارنے والا اپنی لکڑی جتنی دور ہو سکتا لکیر کے دوسری طرف پھینکتا۔ ٹاس بھی لکڑی پھینک کر کیا جاتا تھا۔ دوسرے کھلاڑی اپنی لکڑی سے اس لکڑی کو باری باری چوٹ لگا کر لکیر کے پار بھیجنے کی کوشش کرتے۔ جو کھلاڑی اپنی آخری ٹھوکر سے لکڑی کو لکیر پار کرا دیتا وہ لکڑی جیت جاتا۔

اب ہم ٹیگ کرتے ہیں افتخار اجمل صاحب، شعیب صفدر صاحب، ڈفر صاحب، خاور صاحب اور الطاف گوہر صاحب کو۔