بینظیر کی شہادت کے بعد بقول ان کے شوہر آصف زرادری کے بینظیر کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ ان کے بیٹے کو سونپ دی گئی ہے اور آصف زرداری پارٹی کے نگران بن گئے ہیں۔ یہ مطلق العنانی والا اصول ہے یعنی اگر بادشاد جوانی میں مرجائے تو اس کےجواں سال بیٹے کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے مگر جب تک وہ بڑا نہ ہوجائے اس کی نگرانی وزیر کو سونپ دی جاتی ہے۔bilawalasifzardari.jpg

بینظیر کا چالیسواں ہونے کو ہے اور آصف زرداری صاحب نے ابھی تک اپنی بیوی کی وصیت عوام کو نہیں دکھائی۔ دوسری طرف بینظیر کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھ دیا ہے۔ عام طور پر کبھی ایسا ہوا نہیں کہ ایک آدمی دو ذاتوں کو اپنے نام کا حصہ بنائے اور عموماٌ باپ کی ذات ہی بیٹے اپناتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو بلاول زرداری کے نام کے درمیان بھٹو کا اضافہ سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح بینظیر نے شادی کے بعد اپنے شوہر کے نام کو اپنے نام کا حصہ نہ بنانے کیلیے آصف زرداری کو راضی کرلیا تھا۔

سندھ سمیت پاکستان کی روایت یہی رہی ہے کہ بیٹا اکثر باپ کی وراثت کو آگے لے کر چلتا ہے ناں کہ ماں کی۔ اس روایت کے مطابق بینظیر بھٹو کے چچا ممتاز بھٹو کی منطق درست لگتی ہے یعنی اگر پیپلزپارٹٰی کو جاگیر سمجھ کر وراثت بانٹی گئی ہے تو پھر پارٹی پر بینظیراور آصف زرداری کی اولاد کی بجائے شاہنواز بھٹو اور اس کے بھائی کی اولاد کا حق بنتا ہے۔

سننے میں تویہی آتا رہا ہے کہ بینظیر کی شہادت سے پہلے میاں بیوی کے درمیان طلاق ہونے ہی والی تھی۔ اسی وجہ سے بینظیر نے اپنے شوہر کو پاکستان ساتھ لانے کی بجائے دبئی ہی روک دیا تھا اور ان کا سیاست میں عمل دخل ختم کردیا تھا۔ یہ تو آصف زرداری کی خوش قسمتی تھی کہ بینظیر شہید ہوگئیں اور آصف زرداری پیپلز پارٹی اور بینظیر کی دولت کے وارث بن گئے۔

آصف زرداری کے پارٹی پر قبضے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت کچھ کچھ خاموش خاموش ہے اور لگتا ہے پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت کے آپس میں اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی دوحصوں میں بٹ جائے۔ یعنی ایک حصہ آصف زرداری کو ملے اور دوسرے حصے میں پیپلزپارٹی کے قومی سطح کے لیڈر بھٹو کے کسی پوتے کو اپنا لیڈر مان لیں۔ اگر پیپلزپارٹی دوحصوں میں تقسیم ہوئی تو سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچے گا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بینظیر کی شہادت کے بعد وراثت کی بجائے پارٹی میں انتخابات کرائے جاتے اور جیالے جس کو بھی اپنا لیڈر چنتے پیپلزپارٹی کی قیادت اسے سونپ دی جاتی۔ یہ انتخابات اگر مرکز کی بجائے تحصیل کی سطح تک ہوتے تو بھٹو کی روح کو بھی تسکین پہنچتی اور جمہوریت بھی فروغ پاتی۔ حیرانی ہے کہ آصف زرداری اس مطلق العنانی کے بعدبھی جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔

اب بھی وقت ہے اگر آصف زرداری مناسب سمجھیں تو بینظیر کی غیرجمہوری وصیت کو پس پشت ڈال کر پارٹی میں انتخابات کرائیں اور جمہوریت کی عملی مثال قائم کرکے دکھائیں۔ اگر پیپلز پارٹی دوحصوں میں بٹ جاتی ہے تو پھر کم از کم دوسرے حصے کو جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت چننی چاہیے۔

ہمیں معلوم ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپ کر ہم نے اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے کیونکہ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت بالغ نظر ہوتی تو ہمیں یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔