مسلم لیگ ق جس نے پچھلے پانچ سال بلکہ غیرسرکاری طور پر آٹھ سال حکومت کی ہے موجودہ انتخابی مہم کچھ ایسے وعدے کر رہی ہے جن کو پڑھ کر ان کی لیڈرشپ کی عقل پر شک ہونے لگتا ہے۔

ایک طرف چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں جن میں سرفہرست لال مسجد کا سانحہ، چیف جسٹس کی معزولی، شمالی وزیرستان میں فوج کشي اور بگٹی کا قتل ہیں لیکن دوسرے ہی دن چوہدری شجاعت اس کی تردید کردیتے ہیں۔

اسی طرح پرویز الٰہی وزیراعظم بننے پر ایسے کام کرنے کے دعوے کررہے ہیں جو وہ سابقہ دور اقتدار میں بھی کرسکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کیے۔ چوہدری برادران کہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اسلامی قوانین نافذ کریں گے، مہنگائی ختم کریں گے، ڈیم بنائیں گے، نواز شریف سے لوٹی ہوئی قومی دولت کا حساب لیں گے۔ قرض نادہندگان کو پکڑیں گے۔

 خدا کے بندو کیا تمہیں اب ان مسائل سے آگاہی ہوئی ہے۔ تم لوگ اپنے دور اقتدارمیں اگر یہ کام نہیں نپٹا سکے تو اب کیسے نپٹاؤ گے۔

 ہماری نظر میں مسلم لیگ ق اور دوسری اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کو صرف اور صرف اپنے کارناموں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے چاہئیں۔ اگر وہ وعدوں پر ووٹ مانگتے ہیں تو پھر ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ یہ وعدے وہ پہلے دور اقتدار میں کیوں پورے نہیں کرسکے۔

ان وعدوں کی وجہ سے عام آدمی تو ان سیاسی جماعتوں کو جھوٹا ہی سمجھے گا۔  یعنی اس کے خیال میں اگر وہ پہلے یہ کام نہیں کرسکیں تو پھر آئندہ بھی نہیں کرسکیں گی۔