بیس سال بعد ہماری اس سے ملاقات ہوئی تو ہم اس کو پینٹ کوٹ میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پوچھنے پر پتہ چلا وہ اب واپڈا میں ایکس سی این ہے اور کروڑوں میں کھیل رہا ہے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے چالیس میل دور لاہور کے ایک ہوٹل میں کھاتا ہے اور رات کا کھانا دوسرے ہوٹل میں۔ اس کے گھر میں کئی ملازم ہیں جو دن رات اس کی فیملی کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں۔
وہ ہمارے ساتھ یونیورسٹي میں الیکٹریکل انجنئرنگ ميں داخل ہوا اور ہمارا روم میٹ بن گیا۔ وہ گاؤں سے پہلی دفعہ باہر نکلا تھا اسی لیے اسے کچھ دن تو یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ باتھ روم کا ٹائلٹ کیسے استعمال کرتے ہیں۔ کمرے میں وہ ہمیشہ ایک دھوتی اور بنیان پہنے رکھتا۔ کھانے کیلیے وہ دو روٹیاں تندور سے لاتا اور اچار یا کچے پیاز کیساتھ کھا لیتا۔ پڑھائی میں وہ بہت تیز تھا اور اسی وجہ سے اس نے انجنئرنگ کی ڈگری اچھے گریڈز میں حاصل کرلی۔
ایک دفعہ طالبعلمی کے زمانے میں اسے ہم نے ادھار دینے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنی مالی ضروریات کو پورا کر سکے مگر اس نے مالی امداد ادھار کی شکل میں بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا وہ ہرحال میں جینے کا ہنر جانتا ہے اور جی کر دکھائے گا۔
گریجوایشن کے بعد اس کی قسمت کھل گئی اور واپڈا نے فریش گریجوایٹس کو دھڑا دھڑ بھرتی کرنا شروع کردیا۔ وہ ایس ڈی او بنا تو اس نے اپنے آپ کو پہلے روز سے ہی بدل لیا۔ اب وہ پانچ وقت کا سیدھا سادھا نمازی نہیں رہا تھا اور پینٹ شرٹ پہن کر کالا صاحب بن گیا۔ اس نے چاپلوسی کیلیے اپنے باس کے بچوں کو اس کے گھر جاکر پڑھانا شروع کردیا۔ اس کی یہ چال رنگ لائی اور وہ باس کا جوڑی دار بن گیا۔ اس کے بعد اس کا باس جہاں بھی گیا اسے ساتھ لے کر گیا۔ اس طرح اگلے دس سالوں میں دونوں نے دو دو ہاتھوں سے مال سمیٹا۔ وہ مال کماتا گیا اور جائیداد خریدتا گیا۔ اس کا بھائی جو میڑک سے آگے نہ پڑھ سکا تھا باس کی سفارش پر واپڈا میں ہی میٹر ریڈر لگ گیا۔
کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ایک روز اس کے باس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ اپنے بیوی بچوں سمیت اللہ کو پیارا ہو گیا۔ جب اس کے سر سے باس کا سایہ اٹھ گیا تو پھر اس کے برے دن شروع ہوگئے۔ اسے انکوائریوں میں الجھا کر او ایس ڈی لگا دیا گیا۔ اس کی یہ مصیبت کوئی پانچ سال اسے تنگ کرتی رہی۔ اس دوران اس نے واپڈا ہاؤس کا کلب جوائن کرلیا اور اس کی دوستی واپڈا کے ایک ممبر پاور سے ہوگئی۔ اس نے یہاں بھی چاپلوسی کی خاطر کچھ عرصہ ممبر پاور کے آگے جوے میں خوب دولت ہاری۔ جب اس نے ممبر پاور کا اعتماد بحال کرلیا تو پھر اس کی تمام انکوائریاں ختم کردی گئیں اور وہ آصف زرداری کی طرح ایسے ہی دوبارہ کلین ہو گیا جیسے آخری عمر میں مسلمان حج کرنے کے بعد اپنے آپ کو پاک صاف سمجھنے لگتا ہے۔
دوسرے دور میں اس نے پھر سے مال بنانے کی کوشش کی مگر آرمی کی مداخلت آڑے آئی کیونکہ اب ایس ڈی او کی بجائے آرمی آفیسروں نے جیبیں بھرنا شروع کردی تھیں۔ لیکن وہ چونکہ تجربہ کار تھا اسلیے اس نے جلد ہی فوجیوں سے بھی راہ و رسم بڑھا لی۔ اس کا بھائی جو اس کی مصیبت کے دوران گھر بھیج دیا گیا تھا دوبارہ بحال ہو گیا اور دونوں نے پھر سے مال بنانا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ فوج کے بیرکوں میں واپس لوٹنے کے بعد بھی جاری ہے۔ دونوں بھائیوں کے بچے ملک کے اعلٰٰی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم نے اس ملاقات میں اسے اس کے باس کی موت کا حوالہ دے کر ڈرانے کی کوشش کی تو اس کا جواب تھا موت کے بعد کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا۔ یعنی نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ یہ نوولتیا دوسروں کی طرح سرے سے آخرت کا بھی انکاری ہوچکا تھا۔ وہ کہتا ہے جو مر گیا وہ آسمان پر چڑھ گیا یعنی جب تک جان ہے جہان ہے جب مرگئے تو بعد میں کیا ہو گا اس کی کس کو پرواہ ہے۔
1 user commented in " کیسے کیسے لوگ – نودولتیا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackhttp://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/05/080516_jinnah_mazar_rape.shtml
Leave A Reply