پرائمری سے ہائی سکول تک ہم ایک مضمون “صبح کی سیر” پڑھتے رہے ہیں۔ وہ دور اچھا تھا سکول کا ڈرل ماسٹر جسے پی ٹي کہتے تھے سکول میں ورزش کا انچارج ہوا کرتا تھا۔ ہر کلاس کا ایک پیریڈ ورزش کیلیے مخصوص ہوتا تھا اور اس آدھے گھنٹے میں پی ٹی کبھی پوری کلاس کو گراؤنڈ کا چکر لگواتا اور کبھی کوئی کھیل کھلاتا۔ اگر گرمی زیادہ ہوتی تو درخت کی چھاؤں میں جنگ کی کہانیاں سنایا کرتا۔

پھر ہاکی، کرکٹ اور فٹ بال طالبعلموں کو کھلایا جاتا اور اس طرح کالج اور یونیورسٹی لیول تک ہر کوئی کسی نہ کسی کھیل کا حصہ بنا رہتا۔ ہاں جو طلبا زیادہ پڑھاکو ہوتے تھے وہ ورزش سے دور رہتے تھے۔

لیکن جونہی عملی زندگی کا وقت آیا، سب نے کھیل ترک کردیے اور ان کے متبادل کے طور پر کوئی ورزش شروع نہیں کی۔ اگر کسی کو ورزش کا زیادہ شوق چرایا تو اس نے صبح کی سیر شروع کردی وہ بھی شادی کے بعد جاری نہ رہ سکی۔ ورزش سے دوری کے بعد شادی شدہ عملی زندگی میں مگن دوستوں کی توندیں نکلنا شروع ہوگئیں اور وہ دنوں میں نوجوان لڑکے سے ادھیڑ عمر کے بوڑھے نظر آنے لگے۔ جن لوگوں نے خوراک کا خیال رکھا اور ورزش جاری رکھی ان کی صحت پر توند والے دوست رشک کرنے لگے۔ کبھی کبھی دوستوں کو ورزش کا جوش آتا مگر پانی کے ابال کی طرح چند دن میں ٹھنڈا پڑ جاتا۔ ورزش نہ کرنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے اور ورزش کرنے والے چاک و چوبند رہے۔ ورزش نہ کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ دوست یا تو بیمار رہنے لگے یا پھر دنیا سے ہی کوچ کرگئے اور ورزشی جسم والے دوست ان کے جنازوں کو کندھا دینے لگے۔

ورزش کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ اگر آپ کو ان کی اہمیت کا احساس ہوجائے تو آپ کبھی بھی ورزش ترک نہ کریں۔ آرمی کے لوگ اسی لیے تندرست و توانا رہتے ہیں کہ وہ ساری عمر ورزش کرتے ہیں یا انہیں زبردستی ورزش کرائی جاتی ہے۔

ورزش سے آپ ڈیپریشن پر قابو پاسکتے ہیں۔ آپ کا دماغ صحت مند رہتا ہے۔ آپ کے اعضا زیادہ دیر تک آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ بلکہ آپ کی جنسی طاقت بھی ساری عمر آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ اگر آپ ورزش کرتے ہیں تو کسی بھی مشقت والے کام سے آپ کا جسم تھکتا نہیں ہے اور نہ ہی آپ کا سانس پھولتا ہے۔ اگر آپ ورزش نہیں کرتے تو پھر آپ کو چند کلو وزن بھی اٹھاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔

ہمارے پرانے بزرگوں نے اسی لیے لمبی اور صحت مند عمریں پائیں کیونکہ وہ ساری عمر محنت مشقت کرتے رہے۔ آج اگر لوگ ورزش کیلیے سائیکل چلاتے ہیں تو وہ کام پر جانے کیلیے سائیکل استعمال کیا کرتے تھے۔ آج اگرصبح کی سیر پیدل ہوتی ہے تو وہ روزانہ کام پر پیدل جایا کرتے تھے۔ وہ لوگ زمینداری جیسے محنت والے کام کرتے اور ہٹے کٹے رہتے۔ آج ہم لوگ دفتروں میں محسور ہو چکے ہیں اور ہمارا معمول دفتر سواری پر جانا، واپس آکر کھانا کھانا اور پھر ٹي وی کے آگے بیٹھ جانا۔ جو وقت بچ گیا وہ کمپیوٹر پر بیٹھ گئے۔ اس طرح اب کھلے میدان کے کھیل کم ہوتے جارہے ہیں اور لوگ ورزش چھوڑ چکے ہیں۔

ہماری حکومت کو چاہیے اگر اس نے ایک توانا اور محنتی قوم کی بنیاد رکھنی ہے تو پھر ورزش کی طرف سب کا دھیان لگائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں میں ورزش کیلیے پندرہ بیس منٹ کا وقفہ کیا جائے۔ ٹی وی پر ورزش کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ایسے کھیل تواتر سے دکھائے جائیں جو ورزش کی طرف سامعین کو مائل کریں۔ کبڈی، دنگل وغیرہ کا قومی پیمانے پر انعقاد صحت مند تفریح ہوسکتی ہے۔

اگر موجودہ روش جاری رہی تو چند سال بعد ہم سب لوگ ڈیپریشن کا شکار ہو جائیں گے اور بیماریاں ہمیں ہر طرف سے گھیر لیں گی۔ ہمیں خود بھی چاہیے کہ موبائل فون، کیبل اور کمپیوٹر پر ضائع ہونے والے وقت سے چند لمحے نکال کر کسی صحت مند کھیل میں حصہ لیں اور وزرش کے فوائد کے مزے چکھیں۔