ایکسپریس اخبار اور جنگ اخبار کی خبر کے مطابق نمائندہ جنگ اور کالم نگار نیر زیدی امریکی جیل میں نظر بند ہیں۔ ان کی نظربندی کی اطلاع ان کی بیوی نے دی ہے مگر چار ماہ تک ان کی بیوی کا ایسی خبر چھپائے رکھنا کسی بہت بڑے عتاب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ خبر تو بیگم نیر زیدی کی بجائے جنگ اخبار کو دینی چاہیے تھی جس کے وہ ملازم ہیں۔

حیرانی اس بات پر ہے کہ اتنا مشہور کالم نگار چار ماہ سے غائب ہے اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانےکو اس بات کا علم تک نہیں ہے۔ یہ حیرانی مزید بڑھ جاتی ہے جب پاکستانی سفیر خود ایک اخبار نویس ہو اور کئی سالوں سے واشنگٹن میں رہ رہا ہو۔ اس سے بڑی حیرانی ہمیں جنگ اخبار کی خاموشي پر ہوئی ہے۔ کہاں ہیں جنگ اخبار کے بڑے بڑے کالم نگار جنہیں اپنے ساتھی کی گمشدگی کا علم تک نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

ہم بڑے شوق سے نیرزیدی کے کالم پڑہتے رہے ہیں کیونکہ ان کی واشنگٹن میں موجودگی سپر پاور کو نزدیک سے دیکھنے اور حالات کو پرکھنے میں ان کی معاون رہی ہے۔ نیرزیدی امریکہ میں رہتے ہوئے امریکی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف عراق پر امریکی قبضے کی مخالفت کی بلکہ افغانستان میں جاری اتحادی افواج کے قبضے کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے آج تک اپنے کالموں میں امریکہ کو اچھی رائے ہی دی ہے اور امریکی اقدامات سے پیدا ہونے والے مسائل سے امریکہ کو وقت سے پہلے آگاہ کیا ہے۔ اس خلوص کے باوجود ایسے نیک دل تھنک ٹينک کی زباں بندی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

ہم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے موجودہ دروہ امریکہ کے دوران نیرزیدی کی نظربندی کے متعلق امریکی اتنظامیہ سے بات کریں اور ان کی رہائی کی سفارش کریں۔

ہمیں اب تک یقین نہیں آ رہا کہ نیز زیدی صاحب جیسا سینئر صحافی بھی ایک جمہوری ملک میں بناں کسی مقدمے کے قید ہو سکتا ہے۔ اللہ کرے یہ خبر جھوٹی ہو اور نیرزیدی صاحب خود اس کی تردید کر دیں۔