انگلینڈ میں ایک ہائیڈ پارک ہے جس کے ایک حصے یعنی کارنر کو عوام کی تقاریر کیلیے مختص کیا گیا ہے۔ اس کارنر میں کھڑے ہو کر آپ جو چاہے بولیں، کہیں اور بتائیں آپ پر کوئی قانون لاگو نہیں ہو گا۔
چین نے بھی ہائیڈ پارک کے کارنر کی طرز پر آزادئ اظہار کیلیے موجودہ اولمپکس کے دوران شہر میں ایک سے زیادہ مقامات مختص کئے ہیں تا کہ ثابت کیا جا سکے کہ چین میں بھی شخصی آزادی ہے۔
آج ہم اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی اس پوسٹ کو آزادئ اظہار کا کارنر قرار دیتے ہیں۔ اس پوسٹ کے جواب میں آپ ہم پر کھل کر تعمیری تنقید کیجئے اور ہمارے بلاگ کی خامیوں سے ہمیں نہ صرف آگاہ کیجئے بلکہ ہو سکے تو اس کی بہتری کیلیے مشورے بھی دیجئے۔ ہم مانتے ہیں کہ فی الحال ہمارے قارئین کی تعداد سو سے بھی کم ہے مگر مستقبل کی منصوبہ بندی کیلیے اپنی خامیوں سے آگاہی ضروری ہے۔ اسلیے براہِ مہربانی ہمیں اپنے قیمتی وقت سے دو لمحے ادھار دیجئے اور ہمارے بلاگ کے بارے میں کچھ لکھیے۔
مثال کے طور پر ہمارے ایک مستند قاری کی نظر میں ہمارا بلاگ بوریت پیدا کر رہا ہے جہاں ہم ایک ہی چیز کو بار بار دہرانے کی غلطی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس میں جدت پیدا نہیں ہو رہی۔ ان کا یہ بھی خيال ہے کہ ہماری تحاریر ضرورت سے زیادہ طویل ہوتی ہیں۔ اس کا حل انہوں نے ہمیں اپنے گرد کے متعلق لکھنے کا مشورہ دیا ہے اور دوسرے اپنی تحریر کو پوسٹ کرنے سے پہلے ایڈٹ کرنے کو بھی کہا ہے۔
اب اگر ہمیں اچھی خاصی تجاویز موصول ہو گئیں تو ہم ان کو مدِنظر رکھ کر اور مزید تحقیق کے بعد ایک پوسٹ لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جس میں اچھے بلاگ کی خوبیوں کو اکٹھا کیا جائے گا تا کہ نئے لکھنے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ویسے اس موضوع پر نعمان صاحب اپنے بلاگ پر یہاں اور یہاں لکھ بھی چکے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب لوگ اپنے بلاگز پر بہتر بلاگنگ پر ایک ایک پوسٹ لکھ دیں یا پھر منظر نامہ والے تمام بلاگرز سے اس موضوع پر لکھنے کی درخواست کر کے اسے ایک جگہ پر جمع کر سکتے ہیں۔
اسلیے ہم دوبارہ درخواست کرتے ہیں کہ پلیز ہمارے بلاگ پر ضرور تعمیری تنقید کر کے ہمیں اسے بہتر بنانے کا موقع فراہم کیجئے۔
9 users commented in " ہائیڈ پارک کارنر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ بہت اچھا لکھتے ہیں اور سب سے اچھی آپ کی جو بات ہے کہ آپ باقاعدگی سے بلاگ لکھتے ہیں۔ صرف ایک چیز جو مجھے محسوس ہوتی ہے کہ آپ کی زیادہ تر تحاریر سیاست پر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اور بھی بہت سے ایشوز ہیں، جن پر اگر آپ لکھیں تو بلاگ پر کچھ تبدیلی بھی آتی رہتی ہے۔
بہترین بلاگنگ پر اگر بلاگرز اپنے بلاگ پر لکھیں تو بہت اچھا ہو گا۔ اس سے یہ ہو گا کہ اگر کوئی نیا بلاگر کسی ایک بلاگ پر بھی جائے تو وہ تحریر اس کو پڑھنے کو مل جائے گی۔
ایک اور بات جو ذہن میں آ رہی ہے کہ اگر بلاگرز اس بارے میں لکھتے ہیں تو ہم ان تمام تحاریر کے بہترین اقتباسات ایک پوسٹ میں بنا کر منظر نامہ پر پوسٹ کر سکتے ہیں۔
بہرحال یہ صرف ایک تجویز ہے، جیسا باقی کہیں ویسا ہی ہو گا۔
ویل آپ نے خود دعوت دی ہے۔
ملین ڈالر سوال ہو گا کہ کیا لوگ آپ کا بلاگ پڑھتے ہیں؟
نہیں
کیوں نہیں؟
کیونکہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جو لوگوں کو نہ پتہ ہو کوئی ایسی نئی بات نہیں جو ان کو اسیر کر لے۔ جیسے اردو میڈیا ہے ویسے ہی لکھنے والے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بہت بے حس بن چکے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ہم میں سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حکمران اور ان کے بچے جو جو کرتے ہیں وہ کچھ کرنا ان کا فرض ہے۔ جب تک آپ پاکستان کو کسی ملک سے کمپئیر کر کے نہیں بتائیں گیں آپ پاکستان اور اس کے حالات پر کروڑ دفعہ بھی لکھ لیں ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی۔
آپ کا بلاگ اردو بلاگز میں سب سے زیادہ پوسٹس رکھتا ہے۔ اور میرا نہیں خیال یہ ریکارڈ کوئی توڑ سکے گا۔ لیکن پوسٹ در پوسٹ جو بھی پڑھے گا وہ مایوسی کا ہی شکار ہو گا کہ پاکستان کا تو کچھ بھی نہیں صحیح اسی لئے جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا کہ ان کے مطابق بوریت پیدا کر رہے ہیں۔
کچھ اپنے بارے میں لکھیں گھر، ارد گرد، پاکستانی کمیونٹی وغیرہ وغیرہ۔ مجھے محسوس ہوا کہ آپ اہلخانہ کے ذکر سے اتنا کمفرٹیبل محسوس نہیں کرتے راہبر کو بھی نصیحت کی تھی لیکن جب آپ اہلخانہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں یا گھر کے ارد گرد یا پاکستانی کمیونٹی کی باتیں لکھتے ہیں تو لوگ آپ سے مانوس ہوتے ہیں ارد گرد کی تصاویر یا جہاں آپ سیر پر گئے وہاں کی تصاویر دیکھ کر آپ کی ایک ان دیکھی تصویر بنانے میں قاری آسانی محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ لوگ بلاگ نہیں لکھنے والے کو پڑھتے ہیں۔ تو لکھنے میں ویریشن لائیں۔
میں الٹی باتیں بھی لکھتا ہوں سیدھی باتیں بھی لکھتا ہوں اور بہت فضول باتیں بھی لیکن ایک جیسی پوسٹس نہیں ہوتیں میں نے کوئی نہ کوئی بونگی مارنی ہوتی ہے۔ اس سے آپ کے قاری کو ہوتا ہے یار اس کے دماغ میں اگلا کیا خیال ہے؟ تو میں یہ تو نہیں کہتا آپ بھی میری طرح کی فضول پوسٹس کریں لیکن باوقار انداز میں میرا خیال ہے آپ پاکستان سے ہٹ کر کینیڈا کا بہت کچھ لکھ سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسے ہی چلے تو لوگ کہیں گیں چھوڑو یار وہی باتیں لکھی ہونگی۔ اور اس کے لئے اتنا ضروری بھی نہیں ہوتا کہ آپ بہت بڑی بڑی چیزیں ڈھونڈیں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی باقی دنیا کے لئے بڑی ہوتی ہیں۔
میرا نہیں کیا پوسٹس طویل ہوتی ہیں۔ بلکہ طویل پوسٹس زیادہ بہتر مطلب سمجھاتی ہیں۔ اگر آپ سیریس انگلش بلاگر دیکھیں تو ان کی بھی پوسٹس بڑی ہوتی ہیں میں تو ان کو 2 دفعہ آدھا آدھا کر کے پڑھتا ہوں۔ اختصار سے لکھ کر بھی آ پنے کمنٹس میں باتیں سمجھانی ہیں تو پہلے ہی وقت لے لیں۔
اس میں شرمانے والی بھی بات نہیں کہ فلاں کے مشورے پر عمل ہو رہا ہے یا میں اگر یہاں کا لکھوں تو لوگ سمجھیں گے شوخا ہو رہا ہے کیوںکہ اول تو ہم یہاں رہنے کو کوئی کرامت نہیں سمجھتے اللہ کا کرم جب چاہے دے جب چاہے چھین لے۔ لیکن ہمارے پاس وہ قیمتی معلومات ہوتی ہے جو نہ صرف پاکستان میں بڑی دلچسپ لگتی ہے بلکہ یہاںرہنے والوں کو بھی سسٹم سے جلد سے جلد روشناس کراتی ہے اور ہم اس کو عادت ہو جانے کی وجہ سے بڑی معمولی باتیں سمجھتے ہیں۔
جب تک قاری آپ سے مانوس نہیں ہوتا وہ آپ کو صحیح معنوں میں ریسپیکٹ نہیں دیتا۔ لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنا ہی کمال ہے۔ اور دلچسپی صرف اور صرف نت نئے موضوعات سے ہے ورنہ تو لوگ بور ہو جاتے ہیں۔
سلام،
آپکی بلاگ ایک دفعہ پڑھ کر ہی میں دوبارہ آپکی بلاگ پر آیا ھوں۔
آپکی بلاگ میں ایک دردمند پاکستانی کی آواز ہے۔ صرف بلاگ لکھنا ہی تو مقصد نہیں ہے۔
آپکی بلاگ آپکا سٹائل ہے، آپ کوئی اخبار تھوڑی چھاپ رہے ہیں کہ آپ کو اشتہار لینے کہ لیے بہت سارے قاری چاہیئں۔
آپ کا لکھنے کا ایک اپنا انداز ہے ـ
آپ قارئین کی اتنی برواہ ناں کریں لیکن بدتمیز کے مشورے کے مطابق لوگوں سے مانوسیت ضرور پیدا کریں ـ
کیونکہ تاریخ کیا ہے ؟؟
پرانے زمانے کی میسر تحاریر کا مجموعہ !ـ
ہے ناں ؟؟
تو جی آپ کی تحاریر شائد صدیوں بعد تاریخ کے حوالے بنیں ـ
پرانے پنجابی شاعروں کو پڑہیں تو ایک بات تقریباَ سب میں پائی جاتی ہے که اپنا تعارف اپنے نام گوت گاؤں تک کا لکھتے ہیں ـ
جس سے آج صدیوں بعد ان کو پڑھ کر جہاں ہم ان کی شاعری سے محفوظ ہوتے ہیں وہیں ہم اس بات کا اندازہ کرنے کا بھی موقع ملتا ہے کہ پرانے زمانے کے پنجاپ کا ماحول کیسا تھا ـ
تو جی بات کرنے کا مقصد ہے که آپ جو بھی لکھیں ذمہ داری سے لکھیں که ایک پیشہ ور کالم نگار کا لکھا ہوا آنے والے زمانوں کے تاریخ دان کےلیے کسی حد تک مشکوک ہو سکتا ہے که پیشہ ور نے پيسے ناں کھا لیےہوں ـ
مگر
آپ جیسے ایک غیر پیشہ ور کا لکھا ہوا زیادہ صائب ہو سکتا ہے ـ
زرا غور کریں کہ دوسو سال بعد کا ایک بندہ آج کے پاکستان کی انارکی کا اندازہ کرنا چاہتا ہے تو اردو کے بلاگروں کے بلاگ پڑھ کر اس کو عام بندےکے احساسات کا زیادہ اندازہ ہو سکتا ہے ناں کہ
مشرف صاحب کی کتاب ـ
آپ کے بلاگ کی “تھیم“ میرا پاکستان ہے اور اس لحاظ سے پاکستان کے حوالےسے سب سے جامع موضوعات آپ کے بلاگ پر موجود ہیں۔ “بوریت“ دراصل ایک اضافی اصطلاح ہے۔۔ ایک چیز کسی کے لیے بوریت کا باعث ہو تو دوسرے کی دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ نے پاکستان سے ملحقہ واقعات کا احاطہ کرنا ہوتا ہے تو یہ بہت ممکن ہے کے ملک کی ہمیشہ کی ابترصورت حال کی وجہ بلاگ کے موضوعات مایوسی کا سبب بنتے ہیں ۔۔ بدتمیز کی تجاویز اپنی جگہ مناسب ہیں لیکن تھیم کے مطابق آپ کا بلاگ اہم ہے ۔۔ خاور کی بات بھی بجا ہے کے غالبا کئی سالوں کے بعد یہ انفارمیشن استعمال میں آنا شروع ہو۔ کچھ واقعات کو ان کی اصل روح میں بیان کرنا ہی بہتر ہوتا ہے اگر ہر انسان دلچسپی کا سامان پیدا کرنے کی تگ و دو میں نسیم حجازی بن جائے تو تاریخ کا تو بیڑا غرق ہوجائے گا۔ ہم لوگوں کو ابھی تک سیاست کی اصل سے واقفیت نہیں ہے اس لیے آپ کا بلاگ سیاسی مانا جاتا ہے ۔۔ لیکن جلد رائے میں تبدیلی پیدا ہوگی۔
جناب آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں اچھا لکھ رہے ہیں آپ کا اپنا انداز ہے اس کو قائم رکھیں اللہ برکت دے گا۔
مشوروں کا کیا ہے ہر ایک کا اپنا زاویہ نگاہ ہوتا ہے اور پسند اپنی اپنی۔
بلاگ کو بس آپ کے اندر کی آواز ہونا چاہیے آپ اداس ہیں یا خوش اس کا عکس دکھائی دے تو اچھا ہے۔
ًمحترم ! جاوید افضل صاحب۔
میں ُ ہائڈ پارک کارنر، پڑھ کر پریشان ہو گیا ہوں۔آپ غالباَ ُڈئپریشن، کا شکار ہو رہے ہیں۔ ُمیرا پاکستان، ایک سنجیدہ اور ُباعزت، بلاگ ہے جو ُ بے لاگ، لکھا جاتا ہے اور جس میں قوم و ملک کا درد چھلکتا ہے اور یہ ھی اس بلاگ کی خوبی اور انفرادیت ہے ۔ الفاظ کا استعمال کوئی خاص معنی نہیں رکھتا یہ آپ ہی آپ بنتے چلے جاتے ہیں محنت ۔ مشقت ۔ ریاضت کے اس سفر میں ایک وقت وہ بھی آئیگا کہ الفاظ آپ کے سامنے ھاتھ باندھے قطار اندر قطار کھڑے ہونگے اور آپ الفاظ کا بخوبی چناؤ کر سکیں گے ۔ لیکن اگر لکھنے والے کی نیت درست نا ہو ۔ مقصد محض دل لگی ۔ پیسہ کمانا یا اپنی نمود و نمائش ہو تو اچھے سے اچھے لکھنے والے بھی اپنی عزت و قدر کھو دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں پاکستان کے کچھ اخبارات جنہوں نے صرف روپیہ اور رسوخ کمانے کو ترجیج دی اور درجن بھر چوٹی کے کالم نگاروں کا حوالہ دے سکتا ہوں جو محض پوش علاقوں میں ایک آدھ پلاٹ یا بیٹے کی اعلٰی ملازمت کے لئیے اپنے نصاب سے ہٹ گئے ۔ اور نتیجاَ آج انکا نام پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں ٹھٹھا بن چکا ہے ۔ جبکہ ماشاءاللہ آپ نے آجتک مکمل دیانتداری ۔ ذمہ داری اور نہائیت درد مندی سے پاکستان اور پاکستانی عوام کے متعلق مختلف مسائل پہ لکھا ہے ۔ اور ہمارے نزدیک آپکی یہ خوبی جس میں پاکستان کا درد شامل ہے آپکو اور ُمیرا پاکستان، کو ممتاز کرتی ہے ۔اور ہم آپ کی محنت و مشقت کی داد دیتے ہیں ۔
آپ نے اپنے قارئین کا سو کے عدد سے نا بڑھنے کا شکوہ بھی کیا ہے۔ اس ضمن میں صرف اتنی سی عرض ہے کہ کہ ادیب یا شاعر شروع میں محض اپنے لئیے لکھتا ہے ۔ اپنی سوچوں کو اپنے سخن کو الفاظ کی راہ دکھلاتا ہے ۔یا بھی اسکا شعور ۔ لا شعور بلکہ تحت الشعور بھی بعض اوقات الفاظ کی صورت پھسل پڑتا ہے ۔اور ایک وقت آتا ہے لوگ اس سے فرمائش کرتے ہیں کہ وہ کچھ بیان کرے ۔ کچھ لکھے ۔ قاری بھی بڑھ جائیں گے بس آپ جو من میں ہو اسے اسی طرع دیانتداری سے لکھتے جائیں ۔ طوالت سے بچنے کے لئیے بات مختصر کرتا ہوں ۔ لکھنا اور نیک نیتی سے لکھنا ۔دیانتداری اور درمندی سے لکھنا – کہنا اور دل سے کہنا ۔ بیان کرنا اور نصحیت کے لئیے بیان کرنا ۔ یہ انبیائے اکرام کی سنت ہے ۔ جس کا بار وہی دل اٹھا سکتے ہیں جن کو اللہ نے ضمیر جیسی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ۔
آپکے بلاگ پہ آپ سے رابطے کے لئیے آپکی ای۔میل کا ہونا بہت ضروری ہے کچھ باتیں اور کچھ قاری ہر بات سرِعام نہیں کہتے۔
میں نے محسوس کیا کہ آپ کبھی کبھار لکھتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں جو اچھی بات ہے ۔ یہ احتیاط پسندی غالباَ جہاں آپ مقیم ہیں وہاں کے قانون قاعدوں اور مسلمان اور پاکستانیوں سے متعلق مسائل کی وجہ سے ہے ۔ بہر حال جس بات پہ آپکا ذھن طے ہو ۔ کہ یہ بات یوں ھے ۔اسے بے جھجھک لکھ ڈالا کریں ۔دل پہ بوجھ نہیں رہے گا ۔ جو بہر صورت آپکی ذاتی رائے ہوگی اور رائے پہ کوئی پابندی نہیں ۔
وقت کی کمی اور نییند کی ذیادتی ہو رھی ہے ۔ پھر کبھی اس موضوع لکھوں گا۔ بہر حال ھمیں آپکا لکھا بہت پسند ہے ۔
آپ استقامت اور مستقل مزاجی سے لکھتے رہیں ۔ قارئین خود بخود پیدا ہوتے چلے جائیں گے ۔
دعا گو!
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
آپ اچھا لکھتے ہیں افضل صاحب۔ عموما چونکہ پاکستانی حالات پر لکھتے ہیں اور مجبوری یہ ہے کہ یہاں کی صورتحال کافی مایوس کن سی ہے، اس لیے کسی کو بوریت بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ تحریر میں ذرا سی شگفتگی سے کام بن جائے گا۔
پہلے میں بھی زیادہ تحاریر سنجیدہ لکھتا تھا لیکن پھر احساس ہوا کہ لوگ پہلے ہی اتنے سنجیدہ اور مسائل کا شکار ہیں تو ان کے لیے ایسی باتیں ٹھیک ہیں جو انہیں دلچسپ لگیں۔ پر ایسا تو نہیں کہ سارے ایک ہی انداز سے لکھیں۔ ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنی سوچ ہے۔ اور ماشاء اللہ، آپ کے قارئین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
Leave A Reply