ہماری اکثریت شیر شاہ سوری کو اس کے جی ٹی روڈ کے کارنامے کی وجہ سے جانتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیرشاہ سوری نے ملکی اور مالی اصلاحات، ذرائع آمدورفت، ڈاک کا انتظام، فوجی نظام اور مساوات میں بہت ساری اصلاحات کیں۔ ان کی تفصیل ڈاکٹرعطیہ الرحمٰن کی تحقیق پر مبنی ان کی کتاب شیر شاہ سوری میں مل سکتی ہیں۔
شیرشاہ سوری کے زمانے میں بھی مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور وہ پٹھان، مغل، لودھی اور ان جیسے دوسرے گروہوں میں بٹے رہے۔ ڈاکٹر عطیہ کی تحقیق کے مطابق شیرشاہ سوری انتہائی چالاک اور چالباز انسان تھا جس نے اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے مخالفین کو زیر کیا۔ رہتاس جیسے مظبوط قلعہ کو بھی فتح کرنے کیلیے اس نے قلعہ کے مالک کو دھوکے سے شکست دی۔ اس نے راجہ ہرکشن کو بتایا کہ وہ جنگ کی وجہ سے اپنے عزیزوں اور دولت کو اس کے پاس چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت سارے تحفے تحائف کیساتھ یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنے خزانے کیساتھ اپنی عورتوں کو ڈولیوں میں بھیجوں گا۔ پہلی چند ڈولیوں میں بوڑھی عورتیں اور باقی میں دو دو سپاہی بٹھا دیے۔ پہلی ڈولیوں کو چیک کرنے کے بعد جب قلعے کا دروازہ کھول کر ڈولیوں کو اندر بھیجا گیا تو سپاہیوں نے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔ راجہ نے قلعے کے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی۔
بادشاہ ہمایوں کو بھی اس نے دھوکے سے شکست دی۔ کئی حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر ان کی قربت حاصل کی اور پھر انہی سے حکومت چھین لی۔
یہی چالاکی اور عیاری آج کل کی سیاست کا بھی حصہ ہے اسی لیے سیاستدان کہتے نہیں تھکتے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ آج کے پاکستانی حکمران بھی ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے حکومت کر رہے ہیں۔ نوے دن میں انتخابات کی وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ دوسرے گروپ سے آئینی ترمیم کروا کر وردی اتارنے کے وعدے کو بھِی ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر اس وعدے کو لٹکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی طرح کی پارٹیاں جو پہلے ڈکٹیٹر کی مسلم لیگ ق کی اتحادی ہوتی ہیں، پھر ان کے مخالفین کیساتھ صوبائی حکومت میں شامل ہو جاتی ہیں مگر اس کیساتھ ساتھ مرکز میں ڈکٹیٹر کے مواخذے پر پھر اس کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔ بقول اخبار امت کے ایم کیو ایم صدر کے مواخذے کی حمایت کے بدلے وزارتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یعنی ابھی تک یہی سمجھا جا رہا ہے کہ سیاست میں وہی کامیاب ہے جو سیاست کرتا ہے۔ کسی کے نزدیک اصول، وعدے کی پابندی اور وفاداری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح کے حکمران آنے والی نسلوں کو بھی یہی سکھار رہے ہیں کہ دھوکا اور مکاری ہی کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ یہ اسی تربیت کا اثر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈبل شاہ جیسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
2 users commented in " وہی ریشہ دوانیاں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackback۔۔۔۔۔۔۔کے مطابق شیرشاہ سوری انتہائی چالاک اور چالباز انسان تھا جس نے اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے مخالفین کو زیر کیا۔جس نے اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے مخالفین کو زیر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بادشاہ ہمایوں کو بھی اس نے دھوکے سے شکست دی۔ کئی حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر ان کی قربت حاصل کی اور پھر انہی سے حکومت چھین لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی چالاکی اور عیاری آج کل کی سیاست کا بھی حصہ ہے اسی لیے سیاستدان کہتے نہیں تھکتے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ کی تحقیق پر مبنی ان کی کتاب ۔۔۔۔؟؟؟؟
واللہ میں تو پڑھ کے دنگ رہ گیا ہوں ۔ کیا آپ بھی مشرف کیُ روشن خیالی، کے کچھ تاخیر سے ُمشرف بہ، ہوگئے ہیں؟۔ حضور آپ کو شاید علم نا ہو ۔ ایک شر ہے جو یہاں سے وہاں تک پاکستان میں پھیلا ہوا ہے ۔ تابکے افق فتنے ہیں جو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ مسلم ذہن ۔ مسلم نوجوان ۔ اسلامی ثقافت ۔ اسلامی روایات ۔ اسلامی شناخت – الغرض ہر قسم کے اسلامی تفاخر کو جلا کر بھسم کردینا چاہتے ہیں ۔ جس کے ہروال دستے میں مشرف ۔ سیاستدان ۔ بیوروکریٹ ۔ اعلیٰ عہدیدار ۔ رسوائے زمانہ۔ این جی اوز ۔جن کاخمیر وہاں سے اٹھتا ہے جہاں اس قوم کی ایک مظلوم بیٹی اپنے بچوں سمیت پانچ سال تک کے لئیے گم کر دی جاتی ہے ۔ جس کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔ جس کے دام کھرے کرنے والوں میں اور کوئی ہو نا ہو اسی قوم کا حکمران شامل ہے ۔ جو فخریہ اپنی قوم کے بیٹوں کے دام کھرے کرنے کا اعلانیہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے ۔ جو مکے دکھاتا ھے ۔ کہ یہ قوم جسکا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہے جسکے فخر ۔ خودی ۔ خوداری کو بھوک کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے ۔ جس قوم نے صرف سات سالوں میں ایک قرار داد کو ایک ریاست میں ڈھال دیا ۔ اور ریاست بھی کیسی کہ جس کے نام(پاکستان) سے کوئی ریاست روئے زمین پہ اس سے پہلے موجود نہیں تھی ۔ جسکا نام اس سے قبل تاریخ میں کہیں نہیں ملتا تھا ۔ وہ ریاست ۔وہ قوم وجود میں آئی ۔ وہ نحیف و ناتواں شخص ( رحمتہ اللہ علیہ) جسکی اپنی زندگی کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں تھا ۔ اس کے فولادی عزم نے ۔ آہنی ارادے نے ۔ اسلام کے نام پہ اپنے وقت کی دنیا کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کو وجود میں لانے کا معجزہ کر دکھایا۔ مگر بسا اے آرزو کہ خاک شد ۔
اس کو قوم کو مشرف اور اس کے پیش رؤں نے قوم سے عوام۔ پھرعوام سے رعایا۔اور رعایا سے اسے بھوکے ننگے لوگوں کے منتشر ہجوم میں بدلنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ پاکستان میں ایک سدا بہار نیلام گھر سجا ہوا ہے ۔ جہاں ہر چیز کی نیلامی ہوتی ہے ۔ جہاں فرزانے ۔ دیوانے۔۔ اور دیوانے ۔فرزانہ کہلاتے ہیں ۔ جہاں سچ کو جھوٹ ۔ جھوٹ کو سچ ، رات کو دن اور دن کو رات ۔ حق کو باطل اور باطل کو حق ۔ جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز ۔ ثابت کرنے کے سحر پھونکے جاتے ہیں ۔ جہان ایک سے ایک بڑھ کر سامری وہم اور شک کے جادو پھونک رہے ہیں ۔ یہ وہم ۔یہ شک کسی اور کے بارے میں نہیں بلکہ خود ہمارے بارے میں پھیلائے جارھے ہیں ۔ کہ ہم نادان ہیں ۔ ہمارا ماضی ۔ ہمارا حال اور ہمارا مستقبل تک مشکوک قرار دیا جارہا ہے ۔ ہمیں ہماری شناخت سے محروم کرنے کے مکروہ کھیل جس میں خود جہاں پناہ ۔ عالم پناہ کی ہدایت اور نظر کے اشارے پہ ۔ ہماری عزت ، غیرت ، وقار ، ضمیر ہر چیز عالم پناہ کے چرنوں پہ بلیدان کر دینا چاھتے ہیں ۔ تو آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے؟ کہ کیوں اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے والوں میں اورں کے ساتھ نام نہاد ضمیر فروش ُمحقق، بھی ُتحقیق، کے نام سے شامل ہیں ؟۔
ایک پرانی کہاوت ہے کہ کہ مسقبل کی بنیاد ماضی پہ ہوتی ہے اور ُحال، کی حالت محض ایک ضامن کی سی ہے ۔ اور ہمارا ماضی ۔ ہمارا شاندار اور تابناک ماضی ہمیں اپنا وقار ، اپنی شناخت ، اپنا کھویا ہوا مقام ۔ اور اقوامِ عالم کی صف میں پورے قد سے کھڑا ہونے کی تحریک کرتا ہے ۔ اکساتا ہے – اور مشاہیرِ اسلام اور خاصکر ہمارے مشاہیر ہمارے لیے اہم ورثہ ہیں ۔ جو ھمیں سامری کے اس دور میں ۔ ان گھٹا ٹوپ اندہیروں میں گُم گشتہ منزلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔
افضل صاحب جو قومیں اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہیں ۔ یا جو اپنے تابناک ماضی سے لاعلم ہو جاتی ہیں ۔ وہ بہت جلد گمنامی کی دھول کا رزق بن جاتی ہیں ۔ ان کا تفاخر انکی شناخت چھن جانے سے وہ لاوارث بچے کی طرع اپنا آپ سنبھال نہیں پاتیں ۔ اور نیلام گھر میں سامری نے ایک سے بڑھ کر ایک قیمت ادا کر کے بڑے بڑے شاطر ذہن اپنے قابو میں کر رکھے ہیں ۔ جن کا کام ہی صرف یہ ہے کہ اگر ھمارے دلوں سے اسلام کی محبت نہیں جاتی تو کم از کم ہمارے بچوں کی تعلیمی نصاب سے ہی ھر وہ چیز ختم کر دی جائے۔ خذف کر دی ۔ جو ہمیں اپنی شناخت برقرار رکھنے میں مدد دے سکیں ۔ اور ہم صرف ایک منتشر ذہن کا ہجوم بن کر رہ جائیں ۔ اور ہمارے طے شدہ مشاہیر کو بودا ثابت کرنے کی کوششیں بھی اسی مہم کا نتیجہ ہیں ۔
آپکے شاید علم میں رہا ہوگا کہ بہت سے ممالک نے اپنے فرضی مشاہیر کو حقیقت کا روپ دیا ہے ۔ ان کے ارد گرد فرضی سی داستانیں اور بعض اوقات جھوٹ کے پلندے باندھے ہیں ۔ محض اپنی آئیندہ نسلوں کو ایسا ورثہ عطا کرنے کے لئے کہ جو انکو آگے بڑہنے میں ممدود ثابت ہو ۔ بلکہ تاریخ میں ایسے ممالک کا بھی ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنے لئیے بادشاہ تک دوسری قوموں سے مستعار لئیے تا کہ بادشاہ کے حسب نسب کے تفاخر سے اپنی قوم کے احساسِ کمتری کو ختم کر سکیں ۔ جبکہ ہم مسلمانوں کو اور پاکستانی مسلمانوں کو تو در حقیقت ایسے قومی مشاہیر ورثے میں ملے ہیں جو واقعتاََ جب کبھی ھمیں استحکام نصیب ہوا تو ہماری گم گشتہ شناخت کے لیے مہمیز کا کام دے سکتے ہیں ۔یہ چلن جسکا رواج آج کل ہمارے ہاں عام ہے جس میں سب مایا ہے ۔ ہر شئے بکاؤ ہے ۔ یہ ھمیشہ نہیں رہے گا۔ تحقیق کے نام پہ جو بے تحقیقیاں ۔ علم کے نام پہ بے علمیاں ۔ روشن خیالی کے نام پہ جہالت ۔ دین کے نام پہ بے دیناں ۔ جو ہمارے ہاں ٹھونسی جارہی ہیں یہ سب کمال آقاِ عالم پناہ ۔ جہاں پناہ غلام ابنِ غلام کے ابروِ چشم کے اشارے کے مرہونِ منت ہے ۔جس کے سایہ عاطفت میں جب یہ چشم ، یہ ابرو۔ ہی نا رہے گا تو امید کافی ہے کہ ظلمت شب کے گھٹا ٹوپ اندہیرے خود بخود ہی ہٹ جائیں گے ۔ مگر اس کے لئیے ھمیں اپنی پہچان برقرار رکھنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہنا پڑیگا گا ۔کہ آقاِ عالم پناہ کو انکے بغل بچے کو اور لالہ لبھو رام کو کب تک ہم میں سے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک غلام ابنِ غلام صورتِ جہاں پناہ جغادری حکمران ملیں گے؟ کبھی تو یہ طویل رات ختم ہوگی ۔
اور جناب افضل صاحب! میں نہیں سمجھتا کہ آپ ڈاکٹر موصوفہ کی کتاب کو من وعن سچ مانتے ہوئے فرید خان سور المعروف شیرشاہ سوری جس کو صرف مسلم ھی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ۔ کے بارے میں ایسے الفاظ لکھ چھوڑیں گے ۔ جس کی بناء پہ میں ابھی تک ورطہ حیرت میں ڈوبا ہوں ۔ ہمیں بڑی شدت سے آپکی وضاحت کا انتظار رہے گا۔
آپ ڈاکٹر موصوفہ کی کتاب کے حوالے سے رقم طراز ہیں ُ۔۔۔۔۔شیرشاہ سوری کے زمانے میں بھی مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور وہ پٹھان، مغل، لودھی اور ان جیسے دوسرے گروہوں میں بٹے رہے۔۔۔۔، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ شیر شاھ سوری کی وجہ سے ہوتا تھا۔ وہ تو تب بھی لڑتے تھے آج بھی لڑتے ہیں ۔ اسمیں شیر شاہ کا کیا قصور؟ جبکہ علامہِ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ُضربِ کلیم، کی ایک نظم میں ۔ فرید خان شیر شاہ سوری کی خود متعبر گواہی دی ہے کہ اس اللہ کے بندے نے یہ لڑائی جھگڑے بند کروانے کی کوشش کی ۔
علامہِ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے
کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری
عزیز ہے انھیں نام وزیری و محسود
ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری
وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!
اس سے بڑھ کر اور معتبر گواہی کیا ہوگی؟۔تاریخ دان شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا عظیم رہنما اور فاتح مانتے ہیں۔ اردو ادب میں شیر شاہ سوری سے متعلق کئی مثالی واقعے ملتے ہیں۔
آپ نے اسے چالباز قرار دینے کیساتھ مقابلے سے بھاگنے والا اور کسی حد تک بزدل بھی قرار دیا ہے ۔آپ کے اسطرع شیر شاہ سوری کو چالباز کہنے سے شیر شاہ کے دہوکا باز ہونے کا تاثر ابھرتا ہے آپ چالبازی کی بجائے رائج الدستور ُجنگی حکمتِ عملی، بھی لکھ سکتے تھے اور پھر قابلِ افسوس بات یہ ہیں کہ آپ نے ایم کیو ایم کی کہنہ مکرنیوں کو شیرشاھ سوری سے نسبت دی ہے جو انتہائی قابل ِ افسوس ہے یہاں میں ایک واقعہ تحریر کرنا چاہوں گا جس سے شیر شاہ سوری کی اصل تصویر سمجھنے میں مدد ملے گی اور آپ آج کی حکمرانوں اور تب کے شیر شاہ سوری میں زمیں آسمان کا فرق بھی سمجھ سکیں گے ۔
دکھا دے اے فلک پھر سے وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
برصغیر کی تاریخ کے بے مثل حکمران شیر شاہ سوری کا یہ واقعہ یوں ہے۔ بادشاہ بنگال میں سنار گاؤں کے قریب خیمہ زن تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ پٹنہ کے ایک نواحی گاؤں میں کوئی مسافر قتل ہوگیا ہے۔ مہینہ ہونے کو آیا لیکن قاتل نہیں پکڑا گیا۔ اطلاع پاتے ہی شیر شاہ بے کل ہوگیا۔ گھوڑے پر زین کَسی اور کچھ کہے سنے بغیر روانہ ہوگیا۔ منزلیں مارتا ہوا وقوعہ پر پہنچا، گھوڑا ایک طرف باندھا اور خود سر منہ لپیٹ کر قریب کھڑے ایک درخت پر کلہاڑا چلانے لگا۔ ایک دیہاتی نے دیکھا تو منع کیا، مگر اس نے سُنی ان سُنی کردی، اس نے گاؤں جاکر بتایا، دو چار آدمی اور آگئے، مگر اجنبی ان کو بھی خاطر میں نا لایا۔ وہ سب مل کر گئے اور مکھیا کو بلا لائے۔ جو آتے ہی تحکمانہ چلایا۔ بند کرو یہ سب جانتے نہیں ہو؟ یہ سرکاری ملکیت ہے اور میں اس گاؤں کا مکھیا ہونے کے ناطے اس کا محافظ ہوں۔ جب شیر شاہ نے اس کو بھی نظرانداز کیا تو مکھیا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جس پر شیر شاہ نے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے کہا، میں شہنشاہ ہند شیر شاہ سوری ہوں۔ ایک درخت پر کلہاڑا چلا تو تم سب دوڑے آئے۔ مہینہ ہوگیا، اسی جگہ ایک مسافر کی گردن کٹ گئی اور تمہارے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ چوبیس گھنٹے دیتا ہوں اور میں ادھر ہی مقیم ہوں، مجھے قاتل چاہیے، ورنہ کل اسی جگہ اور اسی وقت تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔ اور خلق خدانے دیکھا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے قاتل زنجیروں میں جکڑا شیر شاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔ شیر شاہ سوری کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ اس نے پوری سلطنت کو چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک کا کسی مستعد شخص کو بلا شرکت غیرے حاکم بنا دیا۔ جسے منصب کی صورت میں عزت اور جاگیر کی صورت میں روزگار حاصل تھا۔ اسے کامل اختیار کے ساتھ مکمل ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ ایڈمنسٹریشن کا یہی سنہری اصول انگریزوں نے بھی اپنایا، وہ اپنے حکام کا انتخاب نہایت احتیاط کے ساتھ میرٹ پر کرتے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے شیر شاہ سوری نے اپنے دور حکومت میں ملک کو جنت ارضی بنا دیا۔
شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں 1540ءتا 1545ءصرف پانچ سال حکومت کی۔ کہا، افسوس کہ اقتدار اس وقت میرے ہاتھ میں آیا جب میری زندگی کا سورج ڈھل رہا تھا۔ سوری تاریخ کی ان نامور شخصیتوں میں سے ہے جنہوں نے خاک سے ابھر کر عظمتوں کا بلند ترین مقام حاصل کیا۔ وہ برصغیر کا پہلا بادشاہ تھا جس نے عوام کی فلاح و بہبود کی طرف پوری توجہ دی۔
آپ رقم طراز ہیں کہ بادشاہ ہمایوں کو بھی اس (شیر شاہ سوری) نے دھوکے سے شکست دی۔ جبکہ دلیر پرجوش اور جواں مرد اور اولعزم شیر شاہ نے مغل سلطنت کے بنیاد گزار بابر کے صاحبزادے ہمایوں کو ایک بار نہیں دو دو بار شکست دی۔ پہلی بار چوسہ کے میدان میں اور دوسری بار قنّوج کے میدان میں۔ 1540ءمیں قنوج کے مقام پر مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں کو فیصلہ کن شکست دے کر اس نے شیر شاہ سوری کا لقب اختیار کیا۔ شیر شاہ کہا کرتا تھا کہ دیہات میں ہونے والے جرائم میں مقامی نمبردار کا ہاتھ ہوتا ہے اور مجرموں کے متعلق انہیں پوری معلومات حاصل ہوتی ہے۔ مجرم کا سراغ نہ ملتا تو علاقائی نمبردار اور پولیس تھانیدار کو گرفتار کر لیا جاتا۔ اس دور کے مورخ نظام الدین احمد نے لکھا ہے کہ شیر شاہ کے دور حکومت میں ہر تاجر بے خوف و خطر سفر کر سکتا اور جنگل میں سو سکتا تھا۔ ایک معذور اور ضعیف بڑھیا اپنے سر پر سونے کے زیورات سے بھری ہوئی ٹوکری رکھ کر بغیر کسی خوف و ہراس کے سفر کر سکتی تھی۔
شیر شاہ نے یوں تو فلاح عامہ کے بے شمار کام کئے لیکن صرف ایک جرنیلی سڑک ہمارے خیال میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ضرور کہلانی چاہئے۔ یہ سڑک سنار گاﺅں مشرقی پاکستان سے شروع ہو کر آگرہ، دہلی اور لاہور سے ہوتی ہوئی جہلم تک چلی گئی ہے۔ اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس ہے۔ اتنی طویل سڑک پر اس نے دونوں طرف سایہ دار درخت لگوائے۔ ہر دو کوس کے فاصلے پر سرائیں تعمیر کروائیں جن کی کل تعداد 1700 تھی۔ ان سراﺅں میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کی خوراک اور رہائش کا الگ اور مفت انتظام ہوتا تھا۔ ہر سرائے کے ساتھ مسجد‘ مندر اور کنویں تعمیر کئے گئے۔ مسجد کے لئے امام اور موذن۔ مندروں کے لئے برہمن اور مسافروں کے سامان کی حفاظت کے لئے چوکیدار مقرر تھے۔ سراﺅں کے دروازوں پر ٹھنڈے پانی کے مٹکے رکھے رہتے تاکہ راہ چلتے مسافر اپنی پیاس بجھا سکیں۔ انہی سراﺅں میں ڈاک کے ملازمین کے آرام اور رہائش کے لئے اور ان کے گھوڑوں کے اصطبلوں کا بندوبست کیا۔ ہر سرائے میں سکیورٹی پولیس موجود ہوتی۔ ان سراﺅں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے نواحی علاقے کی کچھ زمین وقف کر دی جاتی تھی۔
دکھا دے اے فلک پھر سے وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
شیر شاہ سوری ایسا فرماں روا تھا جس کی ستائش نامور مؤرخین اور عالمی مبصرین کرتے ہیں۔ وہ ہندوستان کا پہلا حکمران تھا جس نے عوامی فلاح کی جانب اپنی بھرپور توجہ دی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو تاریخ کی کتابوں میں سنہرے حروف میں تو لکھے گئےاور ان کے نقوش آج تک موجود ہیں۔ساڑھے پانچ سو سال قبل اس نے زرعی اصلاحات کا کام شروع کروایا تھا، جس کی پیروی بعد کے حکمرانوں نے کی۔اور اس نے سب سے پہلے موجودہ ڈاک کا نظام نافذ کیا تھا۔
——————————————————————————–
فرید خان شیر شاہ سوری کے مختصر سے حالاتِ زندگی۔
شیر شاہ کے دادا کا نام ابراہیم خان تھا۔ وہ ایک غریب پٹھان تھا جو زغرئی کا رہنے والا تھا۔ یہ کوہ سلیمان میں سوری قبیلے کے پٹھانوں کی ایک بستی تھی۔
کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
پندرھویں صدی عیسوی میں ابراہیم خان اپنے بیٹے میاں حسن خان کے ساتھ روزگار کی تلاش میں اپنے وطن سے نکلا اور ہندوستان آگیا۔ یہ سلطان بہلول لودھی کا زمانہ تھا جس نے ہندوستان پر 1451 عیسوی سے 1488 عیسوی تک حکومت کی۔
ابراہیم خان پنجاب کے ایک رئیس جمال خان کے پاس ملازم ہو گیا جس کو سلطان بہلول لودھی کی طرف سے ایک بڑی جاگیر ملی ہوئی تھی۔ جمال خان نے ابراہیم خان کی خدمت سے خوش ہو کر اسے “نارنول” میں اپنی طرف سے چند گاؤں جاگیر میں دے دیۓ۔ وہیں 1486 عیسوی میں ابراہیم خان کے بیٹے میاں حسن خان کو اللہ تعالی نے ایک بیٹا دیا جس کا نام اس نے “فرید خان” رکھا یہی فرید خان آگے چل کر شیر شاہ سوری کے لقب سے ہندوستان کا بادشاہ بنا۔
کچھ عرصہ بعد میاں حسن خان اپنے باپ سے الگ ہو کر سر ہند کے ایک جاگیر دار کے پاس چلا گیا لیکن اپنے والد ابراہیم خان کے انتقال کے بعد وہ پھر “نارنول” واپس آگیا جہاں جمال خان نے اس کو کچھ اور گاؤں جاگیر میں دے دیۓ۔
سلطان بہلول لودھی کی وفات کے بعد سلطان سکندر لودھی تخت پر بیٹھا، اس نے جمال خان کو “جونپور” کا حاکم مقرر کر دیا۔
فرید خان کے والد نے حسن خاں سکندر لودھی کے عہد میں جونپور کے حاکم جمال خاں کی ملازمت اختیار کی۔ جس نے فرید خان کے باپ کو بہار کے علاقے میں ایک جاگير عطا کی ۔باپ کے انتقال کے بعد فرید خاں اس جاگیر کا مالک بنا ۔مغل بادشاہ بابر کے دور میں اس نے ایک مرتبہ تلوار کے وار سے شیر کو مارگرایا جس پر اسکو کو شیر خاں کا خطاب دیا گيا ۔اس عہد میں وہ بابر کے دربار سے وابستہ تھا۔بابر کے بعد جب ہمایوں تخت پر بیٹھا تو شیر خاں نے بہار اور بنگال پر قبضہ کرلیا ، ہمایوں ایک نالائق حکمران تھا ۔ ہمایوں سے شیرخاں کی کئی جنگیں ہوئیں اور ہمایوں بھاگ کر ایران چلا گیا جس کے بعد شیرخاں نے شیر شاہ کا لقب اختیار کیا اور سنہ 1540 میں ہندوستان کا فرمانروا بن گیا ، شیر شاہ سوری نے پانچ برس ہندوستان پر حکومت کی اور اس عرصے میں اس نے بے شمار تعمیری اورترقی کے کارنامے انجام دیئے ، اس نے فوج اور مال گزاری کا نظام قائم کیا ، سرائیں بنوائیں ، کنویں کھدوائے ، ڈاک کی چوکیاں اور بڑی بڑی سڑکیں بنوائیں جن میں سے سب سے بڑی سڑک ، جرنیلی سڑک آج بھی موجود ہے ، شیر شاہ سوری 21 مئی سنہ 1545 ع کو کالنجر کے راجہ سے لڑائی کے دوران ایک گولہ پھٹنے سے زخمی ہوگیا اور دوسرے دن جب شیر شاہ سوری کی فوج کو اس جنگ میں فتح حاصل ہوئی تو اس کا انتقال ہوگیا ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ۃ
نوٹ۔: اگر ممکن ہو تو اس تحریر سے دل آزار الفاظ حذف کردیں۔
آپکو اور تمام قارئینِ اکرام کو پاکستان کی سالگرہ مبارک ہو۔اور اللہ کرے آنے والا سال پچھلوں سے اچھا ہو۔آمین
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
Leave A Reply