جب سے موبائل فون عام ہوۓ ہيں ان کو چھيننے کي وارداتيں بہت بڑھ گئي ہيں۔ ايک خبر کے مطابق صرف کراچي ميں اس سال اب تک انتيس ہزار موبائل چھيننے کے کيس درج ہوۓ ہيں۔ ان وارداتوں کا شمار ہي نہيں جو رپورٹ ہي نہيں کي گئيں۔
ہماري حکومت ماشااللہ روشن خيال اور سمجھدار ہے اس کو چاہۓ کہ اپني عقل کو ديشت گردي کے خاتمے کے لۓ ہي نہ وقف کردے بلکہ تھوڑاسا وقت نکال کر اس طرف بھي دھيان دے اور کوئي ايسا طريقہ سوچے کہ ان وارداتوں ميں کمي ہو۔ ان وارداتوں کي وجہ سے لوگ اپني نقدي اور دوسري قيمتي اشياء سے بھي محروم ہو رہے ہيں۔
اب تو راہ چلتے ہوۓ اگر اپنے فون کي گھنٹي بجے تو کال کا جواب دينے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑتا ہےکہ فون جيب سے نکاليں کہ نہ نکاليں۔ پہلے تو اِدھر ادھر کن اکھيوں سے ديکھتے ہيں کہ کوئي طاق لگاۓ تو نہيں بيٹھاہوا پھر ڈرتے ڈرتے فون کو آن کرکے کان سے لگاتے ہيں۔
ان چوري کي وارداتوں کو روکنے کے کئ طريقے ہو سکتے ہيں لکين اصل شرط ايمانداري اور خلوص ہے۔ حکومت ايسي ٹيکنالوجي متعارف کرا سکتي ہے جس سے فون دوبارہ استعمال کرنا ناممکن ہو جاۓ۔ يہ بھي ہوسکتا ہے کہ ہرٹيليفون پر مالک کا نام يا آئي ڈي کھدوا دي جاۓ يا نہ مٹنے والي سياہي سے لکھ دي جاۓ اور دوبارہ ٹيليفون بحال کرنے سے پہلے يہ آئي ڈي چيک کر لي جاۓ۔ اس کے علاوہ ايسے ماڈل متعارف کرواۓ جائيں جن کي وجہ سے چوري شدہ فون کي بحالي دوبارہ نہ ہوسکے۔ يہ بھي ہو سکتا ہے کہ فون ہر کنيکشن کے ساتھ مفت ديۓ جائيں اور صارف سے صرف کنيکشن چارجز کي مد میں رقم وصول کي جاۓ۔
ہرمشکل کا حل ممکن ہے اگر اس کو حل کرنے کي نيت ہو اور تہ دل سے آدمي کوشش کرے۔ مگر جب منصف چوروں کے ساتھ مل جائيں تو پھر ڈکيتيوں کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔