ویسے تو تیس سے زیادہ افراد نے پاکستان کی صدارت کیلیے کاغزات نامزدگی جمع کرائے ہیں مگر بڑے نام صرف تین ہی ہیں آصف زرداری، جسٹس سعید الزماں صدیقی اور مشاہد حسین۔ سچ پوچھیں تو ان میں سے کوئی بھی صدارت کیلیے اہل نہیں ہے۔

آصف زرداری اس حدیث کی رو سے منافق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ مطافق کی نشانی وعدہ خلافی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے اربوں روپے ہڑپ کر چکے ہیں اور اپنے ڈاکٹروں کی میڈیکل رپورٹوں کے مطابق جلد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کچھ لوگوں کو شک ہے کہ بینظیر کے قتل میں مشرف کیساتھ آصف زرداری بھی ملوث تھے۔ پارلیمانی نظام میں صدر ایک سمبل ہوتا ہے اور اس کا کسی جماعت کی طرف جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ زرداری چونکہ پیپلز پارٹي کے سرکردہ سربراہ ہیں اسلیے ان کا نیوٹرل رہنا ناممکن ہے۔

جسٹس سعید الزماں صدیقی نے اپنے وقت میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو چلتا کیا اور نواز شریف کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے انہیں صدارت کیلیے اپنا امیدوار چنا ہے۔ لیکن جسٹس صاحب نے اس کے بعد مشرف دور میں دوبارہ حلف اٹھانے سے انکار کیا اور گھر چلے گئے۔ اسے ہم ان کی پہلی غلطی کا کفارہ بھی کہ سکتے ہیں۔ ہمارا نہیں خیال کر جسٹس سعید الزماں صدیقی صدارت کا نظام بخوبی چلا سکیں گے۔

مشاہد حسین نے اپنی جماعت سے غداری کی اور اپنے آپ کو آمریت کی سپورٹ کیلیے وقف کر دیا۔ آٹھ سال تک انہوں نے مشرف کو سپورٹ کر کے دوسروں کی طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھی جمہوریت پسند نہیں ہیں۔ ایسا شخص صدارت کا امیدوار نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے آمریت ملک پر مسلط رہی ہو۔

ہمارے صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار نے ابھی تک اپنا منشور پیش نہیں کیا یعنی یہ نہیں بتایا کہ وہ صدر کیوں بننا چاہتا ہے اور صدر بن کر وہ ملک اور عوام کی کیا خدمت کرے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدارتی امیدوار ٹی وی پر مذاکرہ کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ وہ کیوں پاکستان کی صدارت کے مستحق ہیں۔ چلیں اور کچھ نہیں تو اسمبلیوں کے مشترکہ اجلاس میں ہی مذاکرہ کر لیتے۔ لیکن چونکہ ہمارے اسمبلی ممبران گونگے بہرے اور اندھے ہیں اسلیے انہیں جس طرف ہانکا جائے گا وہ چل پڑیں گے۔ ان پر کسی مذاکرے کا اثر ہو گا بھی نہیں اور نہ ہی وہ اصل حق دار کو پہچاننے کی کوشش کریں گے۔

اگر کوئی بھی قابل امیدوار صدارت کیلیے میسر نہیں ہے تو پھر موجودہ برے امیدواروں میں سے اگر ہمیں کم برا آدمی چننا پڑے تو ہم جسٹس سعید الزماں صدیقی کو چنیں گے۔