آپ اپنے ارد گر نظر دوڑا کر دیکھ لیں آپ کو مذہب غریبوں میں ہی ملے لگا۔ مسجدوں میں عام طبقہ نماز پڑھنے آئے گا اور اگر امیر آیا بھی تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہو گا۔
اسی طرح آپ کو اعلی حکومتی عہدیداروں کا مذہب کی طرف رجحان کم ہی ملے گا۔ حکمران دکھاوے کے مذہبی کام زور و شور سے کریں گے جیسے عمرے پر جانا، خیرات کرنا وغیرہ مگر جن کاموں میں مشقت ہو گی اس سے وہ اجتناب کریں گے۔ آپ ان کو حج کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہوئے۔ ہاں مسجدیں بنانے کیلیے وہ چندہ ضرور دیں گے اور وہ بھی اپنے نام کی مشہوری کیلیے ناں کہ خدا کی خوشنودی کیلیے۔
آرمی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والے عام سپاہی ہوں گے۔ جن آدمیوں نے اکیڈمی سے تربیت مکمل کر کے لفٹینی سے نوکری شروع کی ہو گی ان میں مذہب کا رجحان بہت کم ہو گا اور اگر کسی میں مذہبی جراثیم نظر آئے بھی تو اس کی ترقی زیادہ سے زیادہ کرنل یا بریگیڈیئر تک ہو گی۔ اس سے آگے وہی ترقی کریں گے جن کی منزل خدا کی خوشنودی کی بجائے کسی اور کی خوشنودی ہو گی اور وہ آزاد خیال اور سیکولر ذہنیت کے مالک ہوں گے۔
بزنس مین، وڈیرے، زمیندار،خان، سردار، مخدوم صرف ان قوانین کی پابندی کریں گے جن کی وجہ سے انہیں دنیا میں ہی سزا ملنے کا خدشہ ہو گا۔ اگر ان سے آخرت کے عذاب کی بات کی جائے تو ان کا جواب ہمیشہ یہی ہو تا ہے “آخرت کس نے دیکھی ہے”۔ اسی لیے امیروں کے گھر کنجر خانے بن چکے ہیں، بڑی بڑی کوٹھیوں میں مجرے ہو رہے ہیں، نائٹ کلب صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں کھلے ہوئے ہیں۔ امیروں کی شادیاں انڈین فلموں کی طرز پر ہو رہی ہیں۔ یعنی اس طرح کے بیہودہ کام کرنے والوں کو نہ خدا کا خوف رہا ہے اور نہ آخرت کا ڈر یعنی وہ نام کے مسلمان ہوتے ہوئے بھی غیرمسلم بن چکے ہیں۔
اسلام پر اگر کوئی طبقہ عمل پیرا ہے تو وہ سادہ دل لوگ ہیں جن کی سادگی سے پیر فقیر بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہیں نماز پڑھنے کی تقلید کرتے ہیں اور وہ بھی صرف انہی کی مسجد میں۔ اگر خدا کا خوف بچا ہے تو صرف غریبوں کے دلوں میں جو زکوة بھی دیتے ہیں اور حقوق العباد کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
5 users commented in " مذہب صرف غریبوں کیلیے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackغریب کے پاس ایمان کی دولت ھوتی ھے جبکہ دولت کے پجاری اس نعمت سے یکسر محروم ھو تے ھیں اور اس امام مسجدکا کیا کیا جائے جو کھ تنخواھ تو پندرہ ھزار لیتا ھے مگر اس کواپنی پلیس آف پوسٹنگ کا علم نھیں۔ واھ امام کیا بات ھے تیری
تاریخ کی کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ جب نجاشی نے اپنے دربار میں حضرت جعفر طیار سے قریش مکہ کے استفسار پر چند سوالات کیے تو ان میں سے شاید ایک اسطرح بھی تھا کہ
کیا محمد صلی اللہ علیہ کے ماننے والوں میں زیادہ تر غریب لوگ شامل ہیں ؟
شاید وہ زیرک بادشاہ یہ جانتا تھا کہ مذہب کی سچائی سب سے پہلے غریبوں کو متاثر کرتی ہے یا شاید دوسرا پہلو یہ کہ دولت انسان میں خودی کو اتنا تنا آور درخت بنا دیتی ہے کہ عبدیت کے تقاضے اسے فضول اور بے معنی نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مساجد میں زیادہ تر غریب غربا نظر آتے ہیں۔۔ ویسے میں نے کراچی کے کئی پوش علاقوں میں اچھی تعداد میں نمازی دیکھے ہیں شاید کلی طور پر یہ کہنا درست نا ہوکہ سارے امیر ہی مذہب سے دور ہیں۔ اور نہ ہی سارے غریب مذہب سے قریب۔
آپ نے بہت حقیقت بھری بات کی ہے
ایک حدیث میں بھی کچھ اسی طرح ہے کہ میرے دین کو قبول کرنے والے غریب ہونگے ، عمل کرنے والے ، قربانی دینے والے اسی طرح جنت میں کثرت سے جانے والوں میں بھی غریب ہونگے (مفہوم)۔
راشد صاحب نے بہت جامع تبصرہ کیا ہے دولت انسان کو غافل کرتی ہے اسی لیئے اللہ کے نبی نے فرماہا تھا کہ مجھے اپنی امت میں مال کی کثرت سے ڈر لگتا ہے
ہم سب کی زندگی میں ہوتا رہتا ہے کہ جب جیب بھری ہو تو اللہ کم کم ہی یاد آتا ہے مگر مشکل آتے ہی اللہ کی یاد آتی ہے
مال انسان کو آخرت اور موت دونوں سے غافل کردیتا ہے
میرے نزدیک یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے کہ غریب دنیا میں تو جیسے تیسے جی لیئے آخرت میں کثرت سے جنت میں جائیں
قارون کا انجام دیکھ کر بہت سے جو پہلے اسی جیسا ہونے کی آرزو کرتے تھے کہا اچھا ہوا کہ ہمارے پاس یہ سب نہ تھا
بڑی سے بڑی ڈگری، دولت، گھر، نصب، حسن سب ملیا میٹ ہو جائے گا رہ جائے گا تو نام اللہ کا اور انسان کے اعمال
آپ کی یہ پوسٹ دعوت کہلائے گی اللہ لوگوں کے دلوں سے مال کی محبت نکال کر اپنی اور انکی محبت ڈال دیں جہ اللہ سے محبت کرتے ہیں
آمین
جہاں تک وطن عزیز کی فوج کا تعلق ہے اس کا تربیتی نظام ابھی تک وہی ہے جو انگریز حکمرانوں نے بنایا تھا سو نتیجہ ظاہر ہے ۔ اس میں معمولی ترمیم ضیاء الحق کے دور میں ہوئی تھی کہ ہر کیڈٹ کے کمرے میں قرآن شریف اور جاء نماز رکھوا دیئے گئے تھے ۔ بہر حال فوج میں ایسے جنرل بھی ہوئے ہیں جو صحیح طور دین کے بہت قریب تھے ۔ میں ضیاء الحق کی بات نہیں کر رہا
باقی لوگوں کے بارے میں 35 سال قبل میرا بھی یہی خیال تھا پھر ایک دوست جو اس وقت سینئر سول جج تھے نے مجھے اپنے موقف کو پرکھنے کا مشورہ دیا ۔ پچھلے 35 سالہ تجربہ اور مشاہدہ کا نچوڑ یہ ہے کہ دین کے صحیح طور پر قریب درمیانہ طبقہ کے لوگ زیادہ ہوتے ہیں ۔ غریب اور بہت زیادہ امیر لوگوں کی اکثریت کا مذہب پیر ۔ قبریں اور عرس ہوتے ہیں ۔ کچھ جو ان دو گروہوں میں دین کے قریب ہوتے ہیں وہ متقی کے درجہ ک قریب ہوتے ہیں ۔
اللہ کی مہربانی سے سیاستدانوں میں بھی چند ایسے ہیں جو بغیر ظاہر کئے دین پر عمل پیرا ہیں ۔ چنانچھ ہر طبقہ میں اللہ تعالی نے کچھ نیک لوگ بنائے ہیں ۔ اللہ تعالی زیادہ لوگوں کو نیکی کی توفیق دے
میں اجمل انکل سے اتفاق کرونگا، امیری اور غریبی دونوں امتحان ہیں اور اس امتحان میں کامیابی خاصی مشکل ہے۔ صحابہء کرام کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف آج سے حساب سے ارب پتی تھے جبکہ کچھ صحابہ کے رہنے کو گھر بھی نہیں تھا۔ اکثریت کا بس گزارہ چلتا تھا۔
باقی آپکی پوسٹ سے کچھ یوںلگا جیسے مذہب کوئی بوجھ ہو جو صرف غربا نے اٹھا رکھا ہو۔ اسکا پیسے سے کوئی تعلق نہیں، کوئی عمل کرے تو اپنے لیے کرتا ہے اور نہ کرے تو بھی اسکا وبال خود جھیلے گا۔
Leave A Reply