انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ ایک بنیا ہے جو سارے ممالک کو سود پر قرضے دیتا ہے۔ یہ بنیا بھی عام بنیے کی طرح پہلے اپنی رقم کی حفاظت کیلیے قرض دار سے یا تو زیور رہن رکھ لیتا ہے یا اس کی زمین پر قبضہ کر لیتا ہے۔ جس طرح بنیے سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح آئی ایم ایف بھی ایک دفعہ مقروض ملکی معیشت پر قبضہ کرنے کے بعد اسے مستقل غلام بنا لیتا ہے۔

آئی ایم ایف کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اور عوام کئی سالوں سے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا شور مچاتے رہے ہیں مگر ہماری فوجی ایلیٹ کلاس نے ابھی تک اس درخواست کو قابل غور ہی نہیں سمجھا۔ آئی ایم ایف نے ایک دفعہ دفاعی بجٹ کی کٹوتی کو نئے قرضے سے مشروط کیا کیا چیف آف سٹاف نے جی ایچ کیو کی تعمیر روک دی اور یہ احسان بھی ملک پر چڑھا دیا یعنی ملکی معاشی صورتحال کی وجہ سے انہوں نے تعمیر روکی ہے۔

ابھی تک تو آئی ایم ایف کا ہمارے قومی بجٹ پر کنٹرول تھا مگر اب لگتا ہے وہ دفاعی بجٹ کی بھی سکروٹنی شروع کر دے گا۔ جو راز ہم نے عوام کے سامنے نہیں کھولا وہ اب آئی ایم ایف کے سامنے کھولنا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ دفاعی بجٹ کم کرنے کیلیے فوج کی تعداد بھی گھٹائی جائے۔ لگتا ہے ایٹمی طاقت کو زیر کرنے کیلیے عالمی طاقتیں اب آئی ایم ایف کے ذریعے ہمارے دفاعی نظام پر کاری ضرب لگانے والی ہیں۔

یہ بھی انوکھی بات ہے کہ پاکستانی وفد کی آئی ایم ایف سے ملاقات پاکستان کی بجائے دبئی میں ہو رہی ہے۔ پہلے تو صرف ہمارے سیاستدان دبئی کو مذاکرات کیلیے استعمال کرتے رہے تھے اب مالی معاملات بھی دبئی میں طے پانے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب ہمارے حکمران دارلحکومت اسلام آباد کو ہی دبئی منتقل کر لیں گے۔

ہماری فوجی قیادت کیلیے یہ شرم کا مقام ہے کہ وہ عوامی دباؤ پر دفاعی بجٹ کم کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے دباؤ پر اپنا بجٹ کم کر رہی ہے۔ فوج کو اب بھی چاہیے کہ وہ بجٹ میں اس کمی کو پارلیمنٹ میں بحث کیلیے بھیجے اور عوامی نمائندوں کو دفاعی بجٹ کی سکروٹنی کا اختیار دے نہ کہ آئی ایم ایف کو۔